عمر جاوداں کا سراغ
مخدوم رشید ملتان کے مخدوم المخادیم کے چشمہء حقانی میں مجھ جیسے بے پیر ، فقیر رہگزر پہ قاسم تقدیر نے کڑے موسموں کی دھوپ میں میرے محسن ” مخدوم جاوید ہاشمی ” مجھ پر شجر سایہ دار کی طرح سایہ فگن رہے ہیں اور قریبی عزیز واقارب کو بھی بانہہ بیلی کی چھتر چھایا میں اپنی دعائے نیم شبی میں ۔۔۔۔۔مخدوم شہباز ہاشمی ، مخدوم امیر احمد ہاشمی اور مخدوم ڈاکٹر اشفاق احمد ہاشمی سمیت ۔۔۔۔۔۔کے آنگن میں ست رنگی پینگ میں رود رواں کے ہلارے میں مست الست رکھنے میں مگن کی لگن میں اخلاص سے سرشار ، بے ریا دعاؤں کے ثمرات سے مستفید و مستفیض ہو رہا ہوں ۔۔۔۔۔
میرے زوق خامہ فرسائی اور کتاب کلچر کی رفتار سست ہو جاتی ہے تو موصوف تازیانہ و مہمیز کا کام کو تیز کرنے کی سبیل کرتے ہیں ۔ آب رود جہلم کی منزل پر زوق نغمہ کمیابی کے گل مراد حاصل کرنے کے خواب لئے کسل و رنج راہ اور تمام کلفتیں آن واحد میں بھول جاتی ہیں اور یوں بھی مشکل یا سہل کی اصطلاحات اضافی حیثیت رکھتی ہیں بقول غالب :
اصطلاحات اسیرانِ تغافل مت پوچھ
جو گرہ آپ نہ کھولی اسے مشکل باندھا
گجر دم ” چشمہ حقانی” مخدوم رشید ملتان سے بند آنکھیں کی چلمن سے اللّٰہ کا نام لیا اور مونہہ طرف ” بُک کارنر جہلم ” کی سمت ناک کی سیدھ میں چلتے ہوئے موٹر وے سے گزرتے جرنیلی سڑک پر منتشر داستانوں ، بھولی بسری یادوں اور اوراق گم گشتہ کی شیرازہ بندی کرنے کے لائق ہوئے ۔
جہلم ایک شہر کا نام بھی ہے اس لیے دریائے جہلم کو ” بطلیموس "کے دئیے ہوئے قدیم نام ” Bid Aspes ” کی یاد گیری کے موجودہ موڑ پر گھومتے پھرتے مجھے احساس ہونے لگا کہ” رود رواں ” کی ہمسفروں کے چہرے پر بچوں کی سی معصومیت جو طویل خاندانی شرافت اور نجابت کا نتیجہ ہوتی ہے ۔ ان کی جبینوں میں علم کا نور ، ان کی آنکھوں میں محبت اور مروت کی جوت تھی ، ان کے ہونٹوں پر ایسی سیال سی مسکراہٹ تھی جو کبھی خوشبو کی طرح سبک اور کبھی شہد کی طرح شیریں ہوتی ہے ۔
اپنائیت کی اجلی روایات کے امین حق رفاقت نبھانے کے لیے کوٹ ادو سے ہم جیسے خستہ تنوں کے ہمراہ جھوک رانجھن دی کی جانب بھاگم بھاگ۔۔۔۔۔درخشاں اور ذہانت سے لبریز آنکھیں ، چہرے پر متانت و سنجیدگی نمایاں ، کم سخن اور بوٹا سا قد ڈرائیونگ سیٹ پر کبھی کبھار اپنے ہونے کا ثبوت دیتا ۔ آپ کا لہجہ دھیما مگر زندگی کا پتہ دینے والا ہے ۔ آپ کی طبیعت حلیم مگر سختیوں اور تلخیوں سے نمٹنے کا فن سکھانے والی ہے ۔ یہ یونیورسٹی آف بلتستان سکردو کے نامی گرامی ” پروفیسر ڈاکٹر اشفاق احمد ہاشمی ” تھے ۔
ہم فقیروں سے دوستی کر لو
گر سکھا دیں گے پادشاہی کے
بھاری بھرکم جسامت ” مخدوم امیر شاہ ہاشمی ” کے وجود سے توانائی ملتی ہے ، روحیں سیراب ہوتی ہیں ۔ آپ کی زات گہری مگر انمول موتیوں سے لبریز ہے ۔ برسوں کی تنہائیاں دور ہوتی ہیں اور انسانیت کی سچی تصویر ہوتے ہیں ۔ سفر حضر میں ۔۔۔ مخدوم شہباز ہاشمی۔۔۔ کے دست و بازو ہوتے ہیں ۔ ان کی ہم نشینی سے سفر انگریزی زبان کا سفر نہیں رہتا ۔
چلتے چلتے کانوں میں کس کی صدا آنے لگی
یوں لگا جیسے برسوں کی تنہائی گئی
مخدوم شہباز ہاشمی۔۔۔۔ کشتگانِ خنجرِ تسلیم و رضا ہمارے میر کارواں تھے ۔ اپنی زات میں ایک کائنات ہیں ۔ فلسفے اور تصوف کے پایاب سمندر میں زندگی کا حق ادا کرتے ہیں ۔یہ وہ فرض بھی نبھاتے ہیں جو واجب نہیں ہوتے ۔ یہ محبت کی طرح ہفت آسماں ، دوستی کی طرح مہربان ، نیکی کی طرح یاد رہنے والی اور رفاقت کی طرح دکھ بانٹنے والے فرد فرید ہیں ۔
میرا بیشتر وقت ان کے کان نمک کی کانوں کے تنقیدی مطالعہ میں ہی گزرا اور یہ انہیں کی رفاقت کا فیض ہے کہ میں نے خواتین اور افسروں کے مزاج کا اندازہ ان کے کانوں سے لگا لیتا ہوں لیکن شرط یہ ہے کہ ان میں زیور نہ ہو ۔
جہلم کا بھاگ بھری سفر ۔۔۔۔۔ پروفیسر ڈاکٹر شاہد صدیقی ۔۔۔۔کی دلفریب شہر ،دلکش کردار اور دل ربا کہانیاں سناتے ” ٹورنٹو ،دبئی اور مانچسٹر ” تازہ ترین کتاب کی تقریب رونمائی تھی ۔ شاہد صدیقی کی ہر کتاب مجھے زندگی کو نئے زاویوں سے دیکھنے کا شعور دیتی ہے ۔شگفتگی اور حسنِ بیان میں ایک فرد کی زندگی میں کئی اور زندگیاں بھی ساتھ ساتھ چھب دکھاتی ہیں ۔ سفرکی ندی کے بہاؤ میں دوام ہے ۔یہ فیض عام کی علامت جو تشنہ لبوں کی پیاس بجھاتے ہے ۔ تشنگانِ علم اس سے اپنی علمی پیاس
بجھاتے ہیں ۔ یہ مزرع دل و دماغ کی آبیاری
کرکے انہیں زرخیز بناتی ہے اور اس رود رواں سے سیراب ہو کر قارئین دریا اور سمندر کا مقام حاصل کر سکتے ہیں ۔
اور وہ پانی کے چشمے پر مقام کارواں
اہلِ ایماں جس طرح جنت میں گرد سلسبیل
جہلم بُک کارنر کے ” گگن شاہد اور امر شاہد ” سے رس بھری ملاقات ابنِ بطوطہ کے بقول ” سفر پہلے تو ہمیں گنگ کر دیتا ہے اور پھر داستان گو بناتا ہے. ” پہلی ملاقات ہمیشہ ایک تخلیقی تجربہ ہوتا ہے ۔ جید دانشوروں کی ملن رت میں دونوں طرف حیرت ، خوف استعجاب ، اظہار و ابلاغ کی کمیابی اور فراوانی کے تمام عناصر تار دو رنگ کی طرح ملے ہوئے ہوتے ہیں ۔ نئے لوگوں سے پہلی ملاقات میں کبھی یوں لگتا ہے کہ جیسے میں پہلی بار کسی کمرہ جماعت میں داخل ہوا ہوں ۔ طلبہ ایک ہی نظر میں استاد کے اندر باہر کا تفصیلی جائزہ لینا چاہتے ہیں ۔ دونوں طرف شب عروسی کا عالم ہوتا ہے ۔ایک طرف شرم دامنگیر ہوتی ہے , دوسری طرف بے باکی ۔ میں شب عروسی کی مثال کی معافی چاہتا ہوں لیکن بڑھاپے میں اس سے بہتر مثال کا تصور ممکن نہیں ۔بقول حافظ :
تا سحر گہ ز کنار تو جواں بر خیزم
بُک کارنر جہلم کی یہ تقریب دلپزیر اور شب بسری کی ترنم خیز ملاقاتیں مجھے ہمیشہ یاد رہے گی ۔ میرے ادبی جاگیر دار "محمد سجاد امین ثم تلمبوی ” گرمیوں میں چھاؤں اور سردیوں میں دھوپ ہیں ۔آپ نے خود کو عسکری ملازمت کی مشین کا پرزہ نہیں بننے دیا بلکہ آپ کی زات ایک سمندر ہے جس کے دل میں طوفان اور چہرے پر سکون ہوتا ہے ۔ آپ نے کوٹھیاں اور بنگلے نہیں بلکہ زندگیاں بنائی ہیں ۔ آپ انسانوں کے قدر دان ہیں۔
ان کی بھرپور معاونت سے ہمارے چہروں سے جوانی اور بے فکری کا رنگ فوارے کی طرح جھلکتا تھا ۔ گگن اور امر شاہد نے یوں پزیرائی کی جیسے دونوں جوان اپنی مصروفیات ہماری نوجوانی گزشتہ نصابی کتابوں کی طرح گھر بھول جاتے ہیں ۔
آنکھ کہتی ہے کہ دیکھا ہے انہیں ایک نظر
دل یہ کہتا ہے کہ برسوں کی شناسائی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ منیر ابنِ رزمی ۔۔۔۔چیچہ وطنی


جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے