عتیق الرحمٰن صفیؔ تعارف اور نمونہء کلام
![]() |
![]() |
عتیق الرحمٰن صفی 22فروری1971ء بمطابق ۲۷ ذوالحج ۱۳۹۰ ھ کو گجرات میں پیدا ہوئے۔ ادبی سفر کا آغاز 1992میں کیا ، آپ بیک وقت اردو اور پنجابی دونوں زبانوں میں سنجیدہ اور مزاحیہ شاعری کرتے ہیں مگر ترجیح سنجیدہ اردو شاعری اور نعت کو دیتے ہیں ۔ شاعری میں غزل، نظم، نعت ، قطعات اور نثر میں مزاحیہ کالم لکھتے ہیں اردو اور پنجابی کے معروف شاعر اور ماہرِ علمِ عروض جناب فیض الحسن ناصرآپ کے استاد ہیں ۔ اس لیے آپ کو بھی علم عروض اور فن شعر پر بھرپور دسترس حاصل ہے ۔ آپ ایک متحرک شاعر ہیں اور بے شمار ملکی سطح کے مشاعروں میں شرکت کر چکے ہیں ، آپ مختلف ادوار میں کئی ادبی تنظیموں میں اہم عہدوں پر ذمہ داریاں نبھا چکے ہیں ۔ جن میں ادبی تنظیم فروغِ سخن ، تنظیمِ شعرا ضلع گجرات ، ادبی تنظیم قلم قافلہ کھاریاں اور حلقہ اربابِ ذوق گجرات اہم نام ہیں ۔ آپ نے 2014ء میں معروف شاعر اشفاق شاہین کے ساتھ مل کر حلقہء اربابِ ذوق گجرات کا آغاز کیا اور سن 2015 تا 2016 حلقہ اربابِ ذوق گجرات میں بطور جوائنٹ سیکرٹری فرائض بھی سر انجام دیے ۔ آپ گجرات کی تمائندہ ادبی تنظیم "گجرات ادبی فورم” کے بانی و صدر ہیں اور آج کل گجرات ادبی فورم کے پلیٹ فارم سے ادب کی خدمت میں مشغول ہیں ۔ ہیں اس کے علاوہ آپ فیس بک پر اپنے ادبی گروپ "پچھلی رت کا ساتھ تمھارا” پر بھی پچھلے کئی سالوں سے ادب کی ترویج اور خدمت میں مصروف ہیں ۔ آپ ایک اچھے شاعر ہی نہیں اچھے انسان بھی ہیں۔ عتیق الرحمٰن صفی کا پہلا مجموعہء کلام "پچھلی رُت کا ساتھ تمھارا” پہلی بار 2003 میں اور دوسری بار سن 2014 میں شائع ہوا۔ مستقبل میں نعتیہ مجموعہ شائع کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
آپ منفرد اسلوب میں عمدہ اشعار کہتے ہیں ۔ آئیے اُن کا نمونۂ کلام دیکھتے ہیں ۔
ہوش اتنا بحال رہتا ہے
صرف تیرا خیال رہتا ہے
اگر ناؤ نہیں بننا تو پھر پتوار بن جاؤ
محبت کے سفر میں تم سہولت کار بن جاؤ
اک بار مسکرا کے ہمیں دیکھ لے حیات
تیری ہی آرزو میں مرے جا رہے ہیں ہم
مانا کہ تیری ذات کا حق دار میں نہیں
لیکن جو تجھ سے عشق ہے میں اس کا کیا کروں
محفل میں یوں ظرف دکھانا پڑ جاتا ہے
دشمن سے بھی ہاتھ ملانا پڑ جاتا ہے
یہ جو رات دن معاصر مرے ساتھ چل رہے ہیں
کئی سازشی عناصر مرے ساتھ چل رہے ہیں
ہے چھوڑ کے جانا تو مجھے چھوڑ مکمل
دے ساتھ کسی کا مرا دل توڑ مکمل
میں نے عصا سمجھ کے تمہیں ساتھ رکھ لیا
تم نے جو روپ سانپ کا دھارا تو میں گیا
وہ کسی اور کا ہونے نہیں دیتا مجھ کو
آپ پہلے مرے مالک کو منائیں ، جائیں
پوچھا نہیں کسی نے کہ سرکار کیا ہوا
خود ہی سمجھ گئے ہیں سمجھ دار کیا ہوا
موسم کو تبدیل ذرا سا ہونے دو
خود ہی اُس کو یاد مری آ جائے گی
چہرہ چھپا رکھا ہے کسی اور بات پر
دنیا سمجھ رہی ہے کہ شرما رہے ہیں آپ
جب عیب کی بجائے صفی خوبیاں گنیں
ہر شخص اپنے آپ سے بہتر لگا مجھے
خیر ہو رکھ رکھاؤ کی صاحب
ضد کمینے سے لگ گئی ہے کیا
زندگی میں بس یہی رجحان ہونا چاہیے
آدمی کو بہترین انسان ہونا چاہیے
اے کاش معجزہ یہ اپنے ہی بس میں ہو
دل جس کو چاہتا ہے وہ دسترس میں ہو
اک پل کی رفاقت بھی احسان سمجھتا ہوں
تم کچھ نہ کہو پھر بھی اے جان سمجھتا ہوں
مت پوچھ کتنے ضبط کے موسم بسر کیے
اب سخت آرزو ہے کسی غمگسار کی
ہوں کس لیے بیزار نہ پوچھیں تو ہے بہتر
یہ مجھ سے مرے یار نہ پوچھیں تو ہے بہتر
باتیں دو چار آپ سے کرنی ہیں اور بس
اک روز چائے ساتھ مرے پیجئے جناب
ہے محبت ہی حل مسائل کا
آپ اس کو نہ مسئلہ کہیے
رابطہ دل کا دل سے ہے کافی مجھے
نور ہی نور میں زندگی ہے ابھی
جس کو چاہا تھا کب ملا مجھ کو
زندگی سے ہے یہ گلہ مجھ کو
دیکھ کر اس کو جیتے تھے ہم دوستو
جب وہ موجود تھا کب تھے غم دوستو
نہیں ایسا ہر گز کہ گھائل نہیں ہوں
تصنیف