اشفاق شاہین
قلمی نام :اشفاق شاہین
اصل نام محمد اشفاق ہے۔ 6 جون 1968 کو جلال پور جٹاں ضلع گجرات میں پیدا ہوئے اور وہیں سکونت پذیر ہیں۔
انہوں نےمیٹرک 1985 میں تعلیم الدین ہائی سکول جلال پور جٹاں سے کیا ۔ ایم ۔اے سے پنجاب یونی ورسٹی جب کہ ایم فل اردو 2017 میں این ۔ سی ۔ بی ۔ اے لاہور سے کیا۔ایم فل اردو کے مقالہ کاموضوع تھا "فیض احمد فیض کی نظموں کا عروضی تجزیہ”۔
شعبہ درس و تدریس سے وابستہ ہیں اور بطور لیکچرر (شعبہ اردو) پنجاب کالج گجرات کے شعبہ اردو سے منسلک ہیں۔
انہوں نے شاعری کا آغاز 1985 میں کیا ۔اشفاق شاہین کا اولین شعری مجموعہ غزل ” طواف گل ” 2017 میں منصۂ شہود پر نمودار ہوا۔
شاعر،کالم نگار،
صدر و ادبی تنظیم ادب ساز 2021 تا حال
صدرادبی تنظیم قلم قافلہ 2017 تا 2022
بانی حلقہ ارباب ذوق گجرات برانچ 2015 تا حال
سیکرٹری حلقہ ارباب ذوق گجرات 2015 تا 2016
دیرینہ رکن رائٹرز گلڈ ہیں ۔
منفرد اسلوب اور جدید لہجے میں بہت خوبصورت اشعار کہتے ہیں ۔ آئیے ان کا نمونۂ کلام دیکھتے ہیں۔
ہم ترے ہجر میں یوں زرد ہوئے جاتے ہیں
لوگ تکتے ہیں تو ہمدرد ہوئے جاتے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تمہارے بعد ان آنکھوں کو بند رکھنا ہے
کھلا ہو در تو کئی آنے جانے لگتے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ذرا سا فاصلہ رکھو مجھے دیدار کرنے دو
بہت نزدیک مت آو دکھائی کچھ نہیں دیتا
۔۔۔۔۔۔۔
ہے کون دل میں اگر ان کو ہم بتانے لگیں
یہ لوگ آکے یہاں سیلفیاں بنانے لگیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صبح نو کے واسطے بے کار ہوں
میں گزشتہ روز کا اخبار ہوں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دم رخصت یہاں اپنی وفا رکھ جانے آئے ہو
بدن میں دل ہوا کرتا ہے الماری نہیں ہوتی
وہ جو اشک تھے مری آنکھ میں کہیں رکھ دیے ہیں سنبھال کر
تجھے راس ہو تری ہر خوشی کوئی رنج کر نہ ملال کر
مجھے فاصلوں سے تو مت سنا یہ حکایتیں مرے بد گماں
مرے پاس آ یہاں بیٹھ جا میں جواب دوں تو سوال کر
۔۔۔۔۔۔۔۔
بور پر کیا کیا گزرتی ہے ثمر ہونے تلک
تم نے سوچا ہی نہیں اثمار لے جاتے ہوئے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عجب سی بھیڑ ہے یہ بھی سمجھ نہیں آتا
میں جارہا ہوں کہاں راستہ بناتے ہوئے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ارادے گرچہ لہروں کے بڑے صدمات والے ہیں
یہ دریا کو بتادینا کہ ہم گجرات والے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عرصہ ہوا ہے ان سے ملاقات ہی نہیں
گجرات لگ رہا ہے کہ گجرات ہی نہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کہاں بستی میں ہم ہر اک حسیں سے چائے پیتے ہیں
جہاں چاہت میسر ہو وہیں سے چائے پیتے ہیں
یہ خستہ کرسیاں یہ زرد چہرے اور دھواں منظر
یہیں ہم بیٹھتے ہیں اور یہیں سے چائے پیتے ہیں
بہت اکتا گئے ہیں عرش کی پیہم مسافت سے
چلو آو نکلتے ہیں زمیں سے چائے پیتے ہیں
شکستہ دل ہیں اور ٹوٹے دلوں سے ہم کو نسبت ہے
انہیں میں بیٹھتے ہیں اور انہیں سے چائے پیتے ہیں
مرے ہمسائے ہو کیوں مجھ سے اتنا دور رہتے ہو
چلو کچھ بات کرتے ہیں کہیں سے چائے پیتے ہیں
دیار غیر میں ہیں ہوٹلوں پر اب گزارا ہے
کسی صوفے پہ سوتے ہیں مشیں سے چائے پیتے ہیں
کسی کی یاد میں بیٹھے رہیں یوں غم زدہ کب تک
چلو اشفاق چلتے ہیں کہیں سے چائے پیتے ہیں
کناروں پر کھنچاو آگیا ہے
سو رسی میں تناو آگیا ہے
میں تالا توڑنے کی سوچ میں تھا
کہ چابی میں گھماو آگیا ہے
تری آنکھوں سے آنسو بہہ اٹھے ہیں
تجھے اپنا بچاو آگیا ہے
یہ کس سے گفتگو کے سلسلے ہیں
تکلم میں رچاو آگیا ہے
فلک تک ریت ہے اشفاق شاہیں
میاں شاید پڑاو آگیا ہے