زین شکیل

زین شکیل



 

خوبصورت شاعر زین شکیل 23 فروری 1992 کو گجرات میں پیدا ہوئے آپ نے کامسیٹس یونیورسٹی لاہور سے سافٹ وئیر انجینرنگ کی ڈگری حاصل کی اور جلالپور جٹاں، گجرات میں رہائش پذیر ہیں
آپ نے شعری سفر کا آغاز 2013 میں کیا اب تک آپ کے 5 شعری مجموعے منظر عام پہ آ چکے ہیں جن کے نام ہیں
چلو اداسی کے پار جائیں،
سن سانسوں کے سلطان پیا،
تیری آواز معجزہ کر دے،
اب کون کہے تم سے،
کن لوگوں میں چھوڑ گئے ہو
آپکی شاعری جذبات سے بھرپور ہے جو قاری کو حیرت میں مبتلا کردیتی ہے آپکی شاعری میں محبت تلخی فطرت انا اور ضد کے ملے جلے تاثرات پاۓ جاتے ہیں آپ بہت سے شہرہ آفاق اشعار کہہ چکے ہیں نوجوانوں میں آپکا مقام نمایاں ہے

منتخب کلام
میں نے کوئی چراغ بھی روشن نہیں کیا
میں چاہتا نہیں کوئی تم سا دکھائی دے
زینؔ ہنس ہنس کے اسی بات پہ رو دیتا ہوں
مجھ سے روٹھے ہوئے رہتے ہیں منائے ہوئے لوگ
تم نے کون سا ہجر سہا تم کیا جانو
کوئی کیوں دیوار سے باتیں کرتا ہے
تُو تو خوش ہو کہ تجھے دُکھ کی دوا بولتے ہیں
میرے بارے میں تو سب کُھل کے بُرا بولتے ہیں
میں نہیں جانتا سینے سے لگانے کے سوا
کوئی روتا ہوا لوٹ آئے تو کیا بولتے ہیں
وہ میرے گھر میں رُکتا بھی تو کیسے
جو خائف تھا مری بوسیدگی سے
مرے اندر فقط اک تُو نہیں ہے
میں کتنا بھر چکا تیری کمی سے
‏پھر روگوں میں چھوڑ گئے ہو
کن لوگوں میں چھوڑ گئے ہو
یہ زخموں پر ہنس دیتے ہیں
اِن لوگوں میں چھوڑ گئے ہو
ہنستے ہنستے جانے والے
کیوں سوگوں میں چھوڑ گئے ہو
ہم کو دردوں اور دکھوں کے،
سنجوگوں میں چھوڑ گئے ہو
دیکھو مجھ کو روند رہے ہیں
جن لوگوں میں چھوڑ گئے ہو
مجھی پہ چیخ پڑا جا تری ضرورت نہیں
وه جیسے رویا مجھے یہ لگا ضرورت ہے
میں کائنات ہتھیلی پہ لا کے رکھ دیتا
تُو ایک بار مجھے بولتا ضرورت ہے
تجھے تو یوں بھی بٹھا لیں گے لوگ آنکھوں پہ
حسین شخص ! تجھے میری کیا ضرورت ہے
تجھے یہ لگتا ہے اُس کی کوئی ضرورت نہیں
جو شخص منہ سے نہیں کہہ رہا ضرورت ہے
یہ مجھ پہ چھوڑ دے جیسے بھی چاند لے آؤں
اداس شخص ۔۔۔۔ فقط یہ بتا ضرورت ہے ؟؟؟؟
سنبھال رکھا تھا دل میں کوئی ملال اُس نے
تڑپ تڑپ کے گزارے تھے کتنے سال اُس نے
کسی نے پھر نہیں دیکھے وہ نین ہنستے ہوئے
رکھا نہ خود کا، مِرے بعد پھر خیال اُس نے
کسی نے آنکھ سے آنسو نہیں چُنے اُس کے
ہمارے بعد رکھی جس سے بول چال اُس نے
جواب ڈھونڈتے رہنے میں عمر وقف ہوئی
وہ جب ملا تو کِیا ہی نہیں سوال اُس نے
بغیر اُس کے تو احساسِ زندگی بھی نہ تھا
گلے لگا کے مری سانس کی بحال اُس نے
تمہارے زین کی خوشیوں سے آشنائی نہیں
ہیں جانے کون سے جھیلے ہوئے زوال اُس نے
اپنی کیا بات کروں ؟ اپنا مصیبت میں کَٹے
کاٹ کر دیکھ ! ترا وقت جو فُرصت میں کَٹے
سب میں بٹتی رہی خیرات ترے چہرے کی !
میری آنکھوں کے شب و روز ضرورت میں کَٹے !
ایک لمحہ، جِسے مجبوری نِگل بیٹھی ہے
مَیں نے چاہا تھا کہ یہ تَو تری قُربت میں کَٹے !
آنکھ روشن ہے، جو روتی ہے غموں پر اُن کے !
سَر وہی اونچا ہے، جو اُن کی محبت میں کَٹے !
تیری فُرقت میں یہ کاٹے بھی نہیں کٹتا ہے
تیرے آنے سے مرا وقت بھی عجلت میں کَٹے
وقت کے بارے میں تلقین تمہیں کرنا تھی
کاٹتے رہنا اِسے، جتنی اذیت میں کَٹے
لمحہ بہ لمحہ ایک مصیبت کے ساتھ ساتھ!
ہم جی رہے ہیں اُس کی ضرورت کے ساتھ ساتھ!
یونہی نہیں قبول کیا میں نے تیرا ہجر!
اِس میں سکون بھی ہے اذیت کے ساتھ ساتھ!
شاید تبھی وہ ہاتھ چھڑاتا ہے تھام کر
دُوری بھی چاہیے اُسے قربت کے ساتھ ساتھ!
ہم نے مٹا کے رکھ دیا اس دل سے آخرش
تیرا خیال بھی تری صورت کے ساتھ ساتھ!
لوگوں میں لے ہی لیتا ہے گھبرا کے میرا نام!
ہے اُس کے دل میں خوف بھی جرات کے ساتھ ساتھ!
اسباب تھے جدائی کے کتنے ہی اور زین!
کچھ تو مرا قصور تھا قسمت کے ساتھ ساتھ!
سُن سانسوں کے سلطان پیا
ترے ہاتھ میں میری جان پیا
میں تیرے بن ویران پیا
تو میرا کُل جہان پیا
مری ہستی، مان، سمان بھی تو
مرا زھد، ذکر، وجدان بھی تو
مرا، کعبہ، تھل، مکران بھی تو
میرے سپنوں کا سلطان بھی تو
کبھی تیر ہوئی، تلوار ہوئی
ترے ہجر میں آ بیمار ہوئی
کب میں تیری سردار ہوئی
میں ضبط کی چیخ پکار ہوئی
میرا لوں لوں تجھے بلائے وے
میری جان وچھوڑا کھائے وے
تیرا ہجر بڑا بے درد سجن
میری جان پہ بن بن آئے وے
مری ساری سکھیاں روٹھ گئیں
مری رو رو اکھیاں پھوٹ گئیں
تجھے ڈھونڈ تھکی نگری نگری
اب ساری آسیں ٹوٹ گئیں
کبھی میری عرضی مان پیا
میں چپ، گم سم، سنسان پیا
میں ازلوں سے نادان پیا
تو میرا کُل جہاں پیا