تحریر : فرحت عباس شاہ
میں تو یہ بھی کہتا ہوں کہ جو نقاد اپنے سماج اور اردگرد کی صورتحال کا ٹھیک ٹھیک تجزیہ نہیں کرسکتا اور معاشرتی نفسیات کی تفہیم کی اہلیت نہیں رکھتا اسے تنقید لکھنی ہی نہیں چاہئیے۔ علمی سطح پر نقاد کا اپڈیٹ رہنا بھی اتنا ہی ضروری ہے جتنا کسی خبر رساں ادارے کا تاکہ اسے اندازہ ہو کہ لوگ کس طرح کے حالات میں کس طرح محسوس کرتے اور ردعمل ظاہر کرتے ہیں ۔ تخلیق کار کے تہذیبی و تمدنی سیاق و سباق میں اس کے ذہنی عوامل کو سمجھنا تبھی ممکن ہوسکے گا جب نقاد خود کو چاروں طرف سے بہرہ مند رکھے گا۔ میں اس بات کو تسلیم کرنے سے انکاری ہوں کہ بڑے تخلیق کار اور بڑے نقاد باقی نہیں رہ گئے ۔ یہ صرف ان خوفزدہ اور مصنوعی لوگوں کی پھیلاٸی ہوٸی بات ہے جن کو ہر وقت یہ دھڑکا لگا رہتا ہے کہ کہیں کوٸی حقیقی تخلیق کار یا نقاد سامنے آ گیا تو ان کا فیک ہونا یا کمتر ہونا ظاہر ہوجاۓ گا۔ اب یہ بھی نقاد ہی کی ذمہ داری ہے کہ سامنے آۓ اور ادب کے قاری اور معاشرے دونوں کو مصنوعی اور مفاد پرست ادیبوں اور حقیقی مخلص ادیبوں کا فرق بتاۓ