کانپور انڈیا کے روزنامہ ، انوار ِ قوم میں مضمون کی اشاعت ۔ بشکریہ جناب زبیر فاروقی ایڈیٹر

نقاد کون ہوتا ہے اور کون نہیں ہوتا

تحریر : فرحت عباس شاہ


میرے ادبی نظریے کے مطابق ادب بذات خود ایک بڑے کائناتی ، تاریخی ، انسانی ، سماجی ، زمانی و مکانی اور ذاتی تناظر میں ضابطہءتحریر میں لائی گئی تخلیقی تنقید ہے ۔
جو انسانی باطنیت ، کاٸنات کی تخلیق اور مظاہر کے ہست کے جواز کو ناقدانہ نظر سے دیکھنے کے ساتھ ساتھ ایک انسان سے لیکر پورے عہد اور ایک عہد سے زمانوں پر پھیلے انسانی کردار کی پرکھ پرچول کرکے احوال بیان کرتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ کائنات کا بڑے سے بڑا سوال ادب نے ہی پیدا کیا ہے چونکہ میرے نزدیک ایسی ہر تخلیق جس کا تعلق انسانی ذہن سے ہو اور اظہار زبان میں ہو ادب کہلاتا ہے اس لیے دنیا کی ہر تخلیقی تحریر چاہے اس کا موضوع فلسفہ ہو یا سائنس ادب ہی کہلاۓ گی ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا کہ اگر ادب بذات خود ایک عظیم تنقید ہے ، کہ جو ہے ، تو پھر ادب کی پرکھ پرچول کرنے والے کی کیا سطح اور کیا اہلیت ہونی چاہئیے۔ کس مقام اور کس مرتبے اور کس علمی و ادبی اور انسانی بصیرت کا حامل انسان نقاد ہونے کا اہل ہوسکتا ہے ، اس کا دعویٰ کر سکتا ہے یا اس کا حق رکھتا ہے ، جو اس عظیم تنقید پر نقد و نظر کا حق ادا کرسکتا ہو۔
کیا کسی زبان و ادب کے مضمون میں ڈگری ہولڈر یا کوئی زبان و ادب کا لگا بندھا نصاب پڑھانے والا نقاد کے منصب پر فائز ہوسکتا ہے ؟
اس کا سادہ سا جواب یہ کہ نہیں فائز ہوسکتا کیونکہ تنقید بذات خود تخلیقی آدمی مانگتی ہے اور مدرسین کی بدقسمتی رہی ہے کہ ان میں شاذ و نادر ہی کوئی بڑا تخلیقی ادیب پیدا ہوا ہوگا ۔ اکثریت ہمیشہ کمتر درجے کی حامل ہی رہی ہے ۔ البتہ یہ دیکھا گیا ہے کہ پہلے سے تخلیقی وابستگی والے چند نابغوں نے روزگار کے طور پر تدریس کے پیشے کو اپنا لیا اور پیشے کی عزت بن گئی ۔ جو لوگ مدرس بننے کے بعد شاعر ادیب بننا ضروری سمجھتے ہیں ان بیچاروں کا ادیب ہونا کلاس رومز تک ہی محدود رہتا ہے یا پھر ان میں سے جو جو ضرورت سے زیادہ چالاک ہو وہ پبلک ریلیشنگ اور دیگر حربے آزما کر اپنے آپ کو اسٹیبلش کر لیتا ہے مگر رہتا کھوکھلے کا کھوکھلا ہی ہے ۔ میرے ہی عہد میں سرگودھا کے ایک تیز طرار نوجوان نے معروف ادبی مجلہ اوراق کو سیڑھی بنانے کے بعد بھارتی ادیبوں کے زریعے مغربی تھیوریوں کے پرچار کو پیڈسٹل بنایا اور بطور نقاد نام اور پیسہ تو کمالیا لیکن پڑھے لکھے طبقے میں سواۓ سرقہ نویس کاپی پیسٹر کے وقعت نہ پا سکا ۔ اس کا غیر تخلیقی ہونا اور مغربی ادیبوں کے جملوں کو الٹا پُلٹا کے لکھنا ہی اس کے فیک اور نالاٸق ہونے کی شہادت بن گیا ۔
یعنی اس بات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ نقاد ہونے کے لیے محض نصابی و تدریسی ہونا یا سرمایہ پرستوں کے ایجنڈوں پر چل کر خود کو اسٹیبلش کرنا یا تدریس چھوڑ کر چھلانگ لگاتے ہوۓ ڈیپوٹیشن پر اداروں کی چئیرمینی حاصل کرنا ہی کافی نہیں ہوتا بلکہ پہلی شرط تخلیقی ہونا ، دوسری شرط مخلص ہونا اور تیسری شرط مفاد پرست نہ ہونا ہوتی ہے ۔ کسی کے نقاد ہونے کے لیے بنیادی ضرورت ہی یہ ہے کہ اسے تخلیقی واردات کے اسرار و رموز کا تجربہ ہو اور معاملات ِ تخلیق سے بلاواسطہ آگاہی ہو ۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا محض تخلیق کار نقاد ہونے کا اہل قرار دیا جاسکتا ہے تو جواب پھر نفی میں ہے ۔ ضروری نہیں کہ تخلیقی قابلیت کا حامل کوئی شاعر یا نثرنگار تخلیق کے تجزیے کا بھی اہل ہو اور ویسے بھی نقاد کے لیے کسی ایک تخلیقی صنفی رویے کی فہم اور اس کے معائب و محاسن کی جانچ پڑتال سے زیادہ کی قابلیت درکار ہوتی ہے تاکہ وہ آفاقی تخلیقی بودوباش ، اس کی روشوں ، موضوعات ، تنوعات اور معجزات کا احاطہ کرسکے جبکہ شاعر کے لیے ضروری نہیں کہ وہ فن پاروں کی پرکھ اور پرچول کی ذمہ داری ادا کرے ۔
میں سمجھتا ہوں نقاد کی علمی و فکری سطح اتنی بلند ہونی چاہئیے کہ وہ سماجی اور سیاسی سطح پر بھی تجزیے اور رہنمائی کی قدرت رکھتا ہو اور پورے اخلاص کے ساتھ قاری ، تخلیق کار اور سماج کی سمت نمائی کرے۔ اگرچہ کسی تخلیق پارے کے حوالے سے اپنی پسند یا ناپسند کا اظہار بھی ایک نہایت بنیادی تنقید کے ہی ضمرے میں آۓ گا لیکن سرسری راۓ یا کوئی تاثراتی یا رسمی مضمون یا کتاب لکھنے والا اس وقت تک نقاد کہلانے کا مستحق نہیں ہوسکتا جب تک وہ اپنے نقد و نظر کے زریعے پہلے سے موجود تنقیدی مواد میں کوٸی فکری یا تفہیمی اضافہ نہیں کرتا ۔ یہی وجہ ہے کہ ہر مدرس مضمون لکھ پانے کے باوجود ، حتیٰ کہ کتابوں کے انبار لگانے کے باوجود بھی نقاد کے مرتبے پر فائز نہیں ہوتا کیونکہ وہ پہلے سے موجود کانٹینٹ سے باہر ہی نہیں نکل پاتا ۔ یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ نوکری یا ڈگری کی ضرورت یا کسی کانفرنس یا پراجیکٹ کے حصول کی خواہش کے تحت لکھی گئی تحریر کو بھی تنقید کہنا کسی گھناونے فعل اور سخت جرم سے کم نہیں کہ ایسے کام کی بنیاد میں اخلاص کی بجاۓ حرص ہونے کی وجہ سے اس کی کوئی علمی و ادبی حیثیت باقی نہیں رہ جاتی اور محض ایک کتابی فریب رہ جاتا ہے جس سے لوگوں کی آنکھوں می دھول تو جھونکی جاسکتی ہے لیکن اس سے کسی قسم کا فیض مہیا نہیں کیا جا سکتا۔
نقاد کے لیے دنیا بھر کے تخلیقی ادب کے مطالعے کے علاوہ دیگر تخلیقی فنون ، مذاہب ، تاریخ ، سائنس ، فلسفہ ، سوشل سائنسز ، معیشت اور بین الاقوامی امور جیسے شعبہ ہاۓ زندگی میں بھی سیر حاصل درک لازمی ہے ورنہ وہ کسی بھی بڑے تخلیق کار کی رفعت ِ خیال ، احساس کی گہراٸی اور مضامین کی معانی آفرینی پر تنقید کا حق ادا کر ہی نہیں سکتا۔ میں نے اس بات کا مشاہدہ اپنی طویل نظموں کے ضمن میں پایا جب بڑے بڑے نام نہاد ناقدین کو ان نظمیں کے سامنے بےبس ہو کر انہیں نظر انداز کرنے پر مجبور ہوتے دیکھا ۔ اگر نقاد کو دنیاوی علوم کی شُدبُد نہیں ہوگی تو وہ کسی بھی اعلیٰ تخلیق پارے کی تہ در تہ معنویت تک رسائی کیسے حاصل کر سکتا ۔

میں تو یہ بھی کہتا ہوں کہ جو نقاد اپنے سماج اور اردگرد کی صورتحال کا ٹھیک ٹھیک تجزیہ نہیں کرسکتا اور معاشرتی نفسیات کی تفہیم کی اہلیت نہیں رکھتا اسے تنقید لکھنی ہی نہیں چاہئیے۔ علمی سطح پر نقاد کا اپڈیٹ رہنا بھی اتنا ہی ضروری ہے جتنا کسی خبر رساں ادارے کا تاکہ اسے اندازہ ہو کہ لوگ کس طرح کے حالات میں کس طرح محسوس کرتے اور ردعمل ظاہر کرتے ہیں ۔ تخلیق کار کے تہذیبی و تمدنی سیاق و سباق میں اس کے ذہنی عوامل کو سمجھنا تبھی ممکن ہوسکے گا جب نقاد خود کو چاروں طرف سے بہرہ مند رکھے گا۔ میں اس بات کو تسلیم کرنے سے انکاری ہوں کہ بڑے تخلیق کار اور بڑے نقاد باقی نہیں رہ گئے ۔ یہ صرف ان خوفزدہ اور مصنوعی لوگوں کی پھیلاٸی ہوٸی بات ہے جن کو ہر وقت یہ دھڑکا لگا رہتا ہے کہ کہیں کوٸی حقیقی تخلیق کار یا نقاد سامنے آ گیا تو ان کا فیک ہونا یا کمتر ہونا ظاہر ہوجاۓ گا۔ اب یہ بھی نقاد ہی کی ذمہ داری ہے کہ سامنے آۓ اور ادب کے قاری اور معاشرے دونوں کو مصنوعی اور مفاد پرست ادیبوں اور حقیقی مخلص ادیبوں کا فرق بتاۓ


جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے