صوفی کسے کہتے ہیں
اُردو ادبی خبروں کی آن لائین اشاعت
صوفی کسے کہتے ہیں
دنیا والے ہم جیسے لوگوں کا ظرف اور ضبط برداشت کی آخری حد تک آزماتے ہیں اور جب سامنے والا پھٹ پڑتا ہے تو کہتے ہیں کہ "تم میں تو برداشت ہی نہیں ہے”
غالب کتاب : غالب۔ مصنف: قاضی عبدالستار۔ قاضی عبدالستارسے غالب کی شخصیت پر ناول لکھنے کی فرمائش صدر ہند عزت مآب فخرالدین علی کی تھی کہ آپ نے جس طرح ‘صلاح الدین ایوبی’ اور ‘دارا شکوہ’ لکھی ہے، اسی طرح ‘غالب’ پر بھی لکھیے۔ صدر کی وفات کے بعد، قاضی صاحب نے اسی فرمائش کے زیراثر نہ صرف یہ معرکۃ الآرا ناول لکھا بلکہ ناول کا انتساب بھی سابق صدر ہند فخرالدین علی احمد کے نام کیا ہے۔ یہ ایک ایسا تخلیقی کارنامہ ہے جو بیک وقت ایک تاریخی اور تہذیبی ناول کی عکاسی کرتا ھے۔ اس میں تہذیب زیادہ اس طرح مسلسل، رواں، گٹھا اور بنا ہوا کہ قاری لمحہ بھر کو اس سے غافل نہیں ہوپاتا۔ قصہ مرکزی خیال سے ذرہ بھر بھی بھٹکا ہوا نہیں۔ اسلوب کی سحر انگیزی خوب۔ ابتدا سے ہی دل پر پتھر رکھ کر قطع نظر کی جائے تو پورے وثوق سے یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ غالب کی زندگی پر اتنی جامعیت کے ساتھ اس سے بہترین ناول اور کوئی نہیں لکھ سکتا۔ اس ناول کے مقدمہ میں قاضی عبدالستار لکھتے ہیں غالب پر ناول لکھنا اس لیے بھی مشکل تھا کہ ‘میرزا غالب’ نام کی فلم بن چکی تھی۔ فلم کی کہانی منٹو جیسے صاحبِ قلم نے لکھی ہے اور ایک ڈومنی کو مرزا کے کندھوں پر سوار کر دیا ہے۔ اور سب اسی کی محبت کی کہانی سننا چاہتے ہیں۔ جو میرے نزدیک سراسر بہتان ہے۔ غالب، مغل تہذیب کا فرزند جلیل ہے، جس کی آستینوں سے اس تھکے ہوئے زرنگار کلچر کا پسینہ بہہ رہا ہے۔۔۔ جو شاعر ہے، نثرنگار ہے، شرابی ہے، جواری ہے، گنہگار ہے، صوفی ہے، موحد ہے، شیعہ ہے، سنی ہے، کافر ہے، عالم ہے، ، نواب ہے، عاشق ہے، خودغرض ہے، چٹکی بھر مسرت کی تلاش میں احسانوں کا کھلیان پھونک دیتا ہے۔ وہ سب کچھ ہو سکتا ہے لیکن اپنے ہم چشموں کی صحبت میں ایک ڈومنی کی کمر میں ہاتھ ڈال کر نہیں آ سکتا کہ یہ اس کی تہذیب کی شریعت کا سب سے بڑا کفر ہے۔ پھر مجھے ایک شعر ملا جس کی روشنائی نے پلاٹ کو منور کر دیا۔ حمیدہ بیگم نے جو شعر بتایا اور ‘ترک بیگم’ کا ذکر کیا جن کا افسانہ انہیں اپنے خاندان کی وراثت میں ملا۔ اور جس کی صداقت پر اپنے عہد کے سب سے بڑے محقق قاضی عبدالودود نے شک کا اظہار کیا۔ انکار کا نہیں۔ اس میں غالب کے بچپن اور لڑکپن کے حالات بیان نہیں کیے گے۔۔۔ ناول غالب کی پکی عمر سے شروع ہوتا ہے جہاں آپ ایک بانکی سے عشق فرما رہے ہیں اور اسکی قربت کے لیئے پینشن کے کیس کا بہانہ بنا کر امراؤ بیگم سے جان چھڑا کر آگرے آن وارد ہوئے ہیں۔۔۔ پھر اسی بی بی ترک بیگم کے گزر جانے کے بعد آپ چغتائی بیگم سے مستفید ہوتے رہے جو ایک طوائف تھیں اور اسی طرح بہت کچھ غالب کے معاشی مسائل کا ذکر بھی ناول میں موجود ہے۔ پھر جب دہلی مقرر اجڑتی ہے بہادر شاہ ظفر کے تخت کا رسمی خاتمی بھی ہو جاتا ہے تو اس حصے میں بہت سے سیاسی مسائل کے ساتھ ساتھ غالب کے معاشی مسائل بھی سامنے آتے ہیں جہاں قاضی صاحب نے فلسفہ جیسا تجربہ پیش کیا ہے جس سے قاری کو مشکلات آتی لیکن اس تکنیک و فلسفہ کو قاری غالب کا شعور جانے یا خود قاضی صاحب کا باقی ناول ایک غالب کی زندگی پر جامع تبصرہ ھے جیسے غالب کی سوانح عمری ھو اور کمال کا چاشنی سے بھرپور اسلوب ہے۔۔۔ بہت خوبصورت اور انداز بیاں میں وہ چاشنی ہے کہ گویا غالب خود لکھ رہے ہوں یا پاس بیٹھ کر لکھوا رہے ہوں۔ غالب کے خاندانی حالات، اور معاشی مشکلات کی بھی عکاسی کرتا ھے۔۔۔ آخر میں الطاف حسین حالی اور دوسرے شاگردوں کو بھی دکھایا گیا ہے۔۔۔ کیا غالب مومن خان مومن کو واقع ہی دلی میں اپنے بعد سب سے اونچا سخنور سمجھتے تھے یا وہ محض ذوق سے بغض تھا، کیونکہ غالب نے خود کہا کہ :: ہم شعر نہیں لکھتے ہم تو حقیقت لکھتے ہیں بیگم اندھوں کے سامنے موتیوں کے ڈھیر لگاتے ہیں اور بہروں کے سامنے بلبلوں کو سبق پڑھاتے ہیں۔ پوری دلی میں کیا پورے ہندوستان میں ایک مومن خاں مومن ہی جو شعر لکھتا ہے غزل سر انجام دیتا ھے جو سب کا استاد ھے،،، یہ سوال اوروں نے بھی کیے لیکن ہم خاموش رہے لیکن تم کو جواب ضرور دیں گے تو سنو! پورے ہندوستان میں صرف چار شاعر ہیں لکھنؤ میں ناسخ اور آتش، دلی میں مومن اور ذوق، ناسخ بیچارہ استاد زیادہ شاعر کم، آتش پہلے قلندر پھر شاعر دونوں فارسی کلام اور کمال سے نابلد۔ دلی میں مومن خاں مومن اسم بامسمی نہ کسی کی بھلائی میں نہ برائی میں کوٹھے پر نہ گیا پر مشاعرے میں چلا گیا۔ شطرنج نہ کھیلی غزل بنا لی نسخہ نہ لکھا شعر لکھ لیا۔ میا ذوق شاعر بھی ہیں اور قعلے کے استاد بھی ہیں۔ روز مرے مارخور عبور رکھتے ہیں۔ ذوق ہوں یا مومن فارسی نظم و نثر یا تو علاقہ نہیں رکھتے یا پھر رشتہ نہیں رکھتے۔ ۔۔ بہر حال ناول بہت ہی لازوال ھے اور پڑھنے کے قابل ہیں اور کافی معلومات بھی ملیں گی خاص کر کتابی دوستوں کو اسی ناول میں نواب شمس الدین اور کریم کو پھانسی اور شہید کا مقدمہ اور کئی چاند تھے سر آسماں کے جوابات بھی مل جائے گئے. شکریہ۔ زین سلیم
کتاب کی عصمت پروفیسر عصمت درانی کا صدیوں زندہ رہنے والا کام کتب خانہ سلطانی ہے ۔یہ صرف ایک کتاب نہیں ہے۔یہ بہاول پور کی تاریخ کا انسائیکلوپیڈیا ہے۔کتب خانہ سلطانی بادی النظر میں ریاست بہاول پور کے شاہی کتب خانے کے موضوع کااحاطہ کرتی نظر آتی ہے۔لیکن یہ نابغہ دستاویز کتاب سے زیادہ طلسم کدہ ہے۔ جو اپنے اندر تاریخ اور تحقیق کی جادوگری کا خوبصورت سنگم لیے ہوئے ہے۔مصنفہ نے ریاست بہاول پور کے نوابین کی کتاب دوستی کو جس عرق ریزی اور زبان و بیان سے گوندھا ہے اس نے ریاست بہاول پور کی دریا دل تاریخ کو کوزے میں سمو دیا ہے ۔اس عظیم علمی خزانے کی بازگشت مجاہد جتوئی سے بارہا سنی تاہم میں امتیاز لکھویرہ کا مشکور ہوں کہ انہوں نے مجھے کتب خانہ سلطانی پڑھنے کے لیے دی۔ اس کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے بہت سے اہل علم نے ایک جملہ بڑے تواتر سے کہا کہ اسے پڑھنا شروع کردیں تو ختم کرکے ہی رکھتے ہیں۔میں اس بات سے اختلاف کرتا ہوں کہ یہ وہ کتاب نہیں ہے جسے ایک ہی نشست میں پڑھ کر رکھ دیا جائے۔ اس کتاب کی ہر سطر ہر پیرا ہر صفحہ اتنا مدلل اور علمیت سے بھرپور ہے کہ اسے پڑھنے کی بجائے سمجھنا ضروری ہے۔مجاہد جتوئی نے تحقیق کے بنیادی اصولوں کو مد نظر رکھتے ہوئے دیوان فرید بالتحقیق جس ریاضت اور دل جمعی سے ازسرنوں ترتیب دیاہے ۔پروفیسر عصمت درانی نے بھی اتنی ہی مشقت دلجمی اور خلوص سے کتب خانہ سلاطین کو سینچا ہے۔دالسرور بہاول پور صدیوں سے علم و آشتی کا مرکز رہا ہے۔ جس نے سارے برصغیر کو علم کی لو سے روشن کیا ہے۔عہد موجود میں ریاست کا یہ کام شخصیات نے سنبھال لیا ہے دیوان فرید بالتحقیق ہو یا کتب خانہ سلطانی یہ دو تحقیقی کام۔ایسے ہیں جنہیں جدیدیت اور روایت پسندی کے سارے اصولوں کی کسوٹی پر پرکھا جاسکتا ہے۔میرے کالم۔کا۔موضوع ان دوکتابوں کا موازنہ یا تجزیہ کرنا نہیں ہے یہاں بتانا مقصود ہے کہ تاریخ و تحقیق کا عملی معیار کیا ۔جامعات کے اندر ہونے والی تحقیق کا معیار آپ سب جانتے ہیں ۔کاپی پیسٹ اور ڈگری کے حصول کے لیے تحت لکھے جانے والے مقالے کبھی تاریخ نہیں بنتے۔ کتب خانہ سلطانی جو کہ نوابین ریاست بہاول پور کا شاہی کتب خانہ تھا اسکی تاریخ اور زوال کے اسباب مرتب کرتے ہوئے مصنفہ نے ریاست بہاول پور کی تاریخ کو جس انداز میں مرتب کیا ہے۔ جن تاریخی دستاویزات،شخصیات اور افراد کے۔زاتی کتب خانوں سے استفادہ کیا ہے یہ کتاب ہر بہاول پوری کے گھر ضرور ہونی چاہیے تاکہ ہم اپنے بچوں کو ریاست بہاول پور کی تہذیب، علم دوستی کتاب پروری یہاں کے درجنوں کتب خانوں ،مکتبہ العزیزیہ جیسے چھاپہ خانوں ،خانوادوں ،تاریخی مقامات ،کتب خانہ سلطانی کے عملہ کے افراد کا تعارف ،اس میموجقد کتابوں کی فہرست اور تفصیل ،مخطوطات، آخری نواب صاحب ریاست کے عروج اور زوال کیساتھ ساتھ نواب صاحب کی زاتی زندگی کے گوشوں، خاندان آل اور س کتب کتب خانے کی وراثت ککی تقسیمِ کی تفصیلات موجود ہیں۔ کتاب میں کتب خانہ سلطانی کی تصاویر، عملہ کتب خانہ سلطانی کا تعارف و تصاویر کتاب کو مزید دلچسپ بناتے ہیں۔مصنفہ فارسی زبان و ادب کی کہنہ مشق استاد ہیں اور انکی اردو دانی اس کتاب کو بام عروج تک لکے گئی ہے۔ اردو زبان کی لطافت خوشبو وارفتگی چاشنی آپکو اس کتاب کے ہر ہر حرف میں جابجا بکھری نظر آئے گی۔ استاد العلماء عارف نوشاہی نے قصر سلطانی کا قصیدہ اور مرثیہ ،بہاول پور کی تاریخ کے مستند استاد شاہد رضوی کا کتب خانہ سلطانی اجتماعی بے بسی نوحہ اس کتاب کے تاریخہ دستاویز ہونے کی سند ہی۔یہ کتاب اپنے پس منظر میں ایک خاتون استاد جو شورائے گسترش زبان و ادبیات فارسی کے عالمی امتحان کے رتبہ اول کا اعزاز رکھتی ہیں کے حصول علم کے سفر میں درپیش مشکلات اور انکے ہمسفر اور گمنام ہیرو اسلم درانی کی جدوجہد بھی قابل ذکر ہے جنہوں نے اپنی بینک کی نوکری کیساتھ ساتھ اپنی شریک حیات کی ہر طرح سے معاونت کی۔دور دراز کے سفر کیے۔ اہل بہاول پور کو اس شاندار کتاب کے تحفے پر ہم پروفیسر عصمت درانی اور جناب اسلم درانی کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں راجہ شفقت محمود آواز وسیب بہاول پور
پاکستان رائیٹرز یونین اور حلقہ ارباب ذوق لاہور کے زیر اہتمام سیمینار موضوع : ادب دشمن فیسٹیولز تحریر : فیصل زمان چشتی یکم دسمبر 2023 بروز جمعتہ المبارک حلقہ ارباب ذوق لاہور کا خصوصی اجلاس منعقد ہوا جس میں ایک سیمینار کا انعقاد کیا گیا جس کا موضوع تھا ” ادب دشمن فیسٹیولز ” ایک ڈسکشن پینل تشکیل دیا گیا جس کے چیف پینلسٹ لمز یونیورسٹی کے سینئر استاد پروفیسر ڈاکٹر سید عظیم تھے۔ فرحت عباس شاہ، پروفیسر شفیق احمد خان، منظر حسین اختر، علی نواز شاہ اور شہزاد واثق بھی پینل کے شرکاء میں شامل تھے۔ نظامت کے فرائض فیصل زمان چشتی نے ادا کیے۔ مقررین نے کہا کہ ادب ہمیشہ سچائی ، سماج اور معاشرے کے ساتھ جڑا ہوتا ہے۔ دوران تخلیق ذاتی مفاد ادب کے لئے نقصان دہ ہے۔ ٹارگٹ کرکے کبھی ادب تخلیق نہیں کیا جاسکتا ہے۔ شاعری کے ذریعے پیسوں، مشاعروں اور عہدوں کا حصول ادب کے لئے زہر قاتل ہے۔ کئی مشہور شعراء کی مثالیں دی جاسکتی ہیں۔ نام نہاد ادبی فیسٹیولز سے ادب تباہ ہو رہا ہے۔ ادبی فیسٹیولز کے پیچھے چھپے راز کو جاننے کی ضرورت ہے۔ اس سے تھنکرز تباہ ہورہے ہیں اور مفاد پرست عناصر آگے آرہے ہیں۔ ان کا مقصد تخلیقیت کو ختم کرنا ہے، صاحب ادراک اور صاحب شعور لوگوں کی بیخ کنی کی جارہی ہے۔ یہ مصنوعی لوگوں کو آگے لا رہے ہیں۔ کھلم کھلا ادب دشمنی کی جارہی ہے اور کوئی روکنے والا اور لگام ڈالنے والا نہیں ہے۔ ادب معاشرے کی وہ آنکھ ہوتا ہے جس سے آنے والی نسلوں کو راہنمائی ملتی ہے۔ ادب کو فیسٹیولز اور میلوں ٹھیلوں سے جوڑنا انتہائی نامناسب بلکہ ادب کی تضحیک کرنے کے مترادف ہے۔ ادب ایک سنجیدہ کام ہے یہ کوئی شغل میلہ بالکل بھی نہیں ہے۔ حکمرانوں کو بھی سنجیدہ اور سوچنے و سمجھنے والے لوگ اچھے نہیں لگتے ہیں اسی لیے ہمیشہ فرنٹ لائن پہ دونمبر اور غیر سنجیدہ لوگ لائے گئے۔ متشاعر خواتین و حضرات صدارتیں کرتے پھر رہے ہیں کوئی ضابطہ کوئی قاعدہ ہی نہیں ہے۔ کارپوریٹ سیکٹر سچا ادیب سامنے آنے ہی نہیں دے رہا ہے۔ ادب کو اگر ادب رہنے دیا جائے تو یہ سماج اور معاشرے پر احسان عظیم ہوگا۔ ادب کو شغل میلہ بنانے سے نہ روکا گیا تو معاشرہ مزید تباہی سے دوچار ہوگا۔ فیسٹیولز مفادات کی نگرانی کا کھیل ہے جبکہ ادب احساس اور وجدان سے تعلق رکھتا ہے جس میں دکھوں اور تکالیف کی ترسیل کی جاتی ہے۔ شروع سے ہی سرکاری سرپرستی سے ادیب کو خریدنے اور دھمکانے کی کوششیں کی جاتی رہی ہیں۔ کچھ نام نہاد ادیب اور دانشور مفادات اور عہدوں کے لالچ میں ادب کو بڑی حد تک تباہ کر چکے ہیں اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ ہوش کے ناخن لیے جایئں اور ایسے مثبت اقدامات کئے جائیں کہ ادب مزید تباہی و بربادی سے بچ سکے۔ ادب کو بچانے کے لئے سب سے بڑا کردار ادیب کو خود ادا کرنا ہوگا۔ فیسٹیولز کے سیاسی، معاشی اور نظریاتی پہلو ہوتے ہیں جن کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ہماری جمہوریت میں گہرائی نہیں ہے جس کی وجہ سے مسائل ہیں اور وہ گہرائی عوام ہوتے ہیں۔ تمام یونینز اور تحاریک اسی وجہ سے تباہ ہویئں اور ارادتا” کچلا بھی گیا۔ یہ مفادات کے مختلف گٹھ جوڑ ہیں۔ معیشت اور کمرشلائزیشن ہر جگہ اثر انداز ہوتی ہے۔ یہ بااثر لوگ ہیں جو ہماری تہذیب، ثقافت اور دیہاتی کلچر کو برباد کررہے ہیں ہرچیز کی قیمت لگائی جارہی ہے۔ یہ مارکیٹ اکانومی ہے۔ تہذیب کو ادب سے علیحدہ نہیں کیا جاسکتا ۔ تنقید نظریات لے کر آتی ہے اور ادبی تنقید سب سے اہمیت کی حامل ہے۔ اصل ادب آج بھی مڈل کلاس اور غریب طبقے میں لکھا جارہا ہے اور یہ ایک حقیقت ہے۔ ہماری سول سوسائٹی اور ادیب برادری کو آگے آنا چاہیے اور ادب دشمن سرگرمیوں کے سدباب کے اقدامات کرنے چاہئیں تاکہ حقیقی ادب اور معاشرہ بچ سکے۔ سب سے آخر میں پینل سے سوال و جواب کا سلسلہ بھی ہوا اور پینل نے حاضرین کے مختلف سوالات کے تسلی بخش جوابات دیئے۔ اس طرح تادیر جاری رہنے والا اجلاس اختتام پذیر ہوا۔۔
8 دسمبر 2023 کی ہلکی سی خنک شام(کراچی میں) جناب اصغر خان کی 3 کتب کی تقریب پذیرائی مقام : کراچی جم خانہ صدارت: جناب محمود شام مہمانان خصوصی: جناب اکرم کنجاہی جناب ڈاکٹر عمیر احمد خان جناب خالد معین نظامت: محترمہ ماریہ مہ وش انتظامات: جناب کامران مغل تصویر بہ شکریہ: جناب عمار یاسر تقریب کا اختصاص: تعلیم یافتہ سامعین جناب اصغر خان صاحب کی کتب کی تقریب رونمائی ۔۔۔ کراچی جرمانہ کے لاجز رسٹورنٹ میں منعقد ہوئی۔ تقریب کی خاص بات یہ بھی تھی کہ دسمبر کے مہینے میں اے سی فل چل رہا تھا۔ گویا تقریب میں شرکت کے لیئے برفیدہ ہونا ضروری تھا۔ (اگر برفیدہ کوئی لفظ نہیں تو پیشگی معذرت) تقریب کی صدارت جناب محمود شام صاحب نے کی۔ مہمانان گرامی میں جناب اکرم کنجاہی صاحب، جناب ڈاکٹر عمیر احمد خان صاحب اور جناب خالد معین صاحب تھے۔ نظامت کے فرائض محترمہ ماریہ مہ وش بے ادا کیئے۔ تقریب کے اختتام کے قریب برفیلی ہوا کا احساس ہونے پر اسے ہلکا کر دیا گیا تھا۔ بعد ازاں حاضرین کی تواضع چائے اور دیگر لوازمات سے کی گئی۔ تقریب سلیقے اور خوش گوار احساسات سے اختتام پذیر ہوئی۔ عماریاسر 8 دسمبر 2023
نقاد کون ہوتا ہے اور کون نہیں ہوتا میری زیرتکمیل کتاب ، ” علم ، نظام تعلیم اور تخلیقی ادب “ ( ادراکی تنقیدی دبستان جلد دوم ) میں سے ایک مضمون ۔ نقاد کون ہوتا ہے اور کون نہیں ہوتا تحریر : فرحت عباس شاہ میرے ادبی نظریے کے مطابق ادب بذات خود ایک بڑے کاٸناتی ، تاریخی ، انسانی ، سماجی ، زمانی و مکانی اور ذاتی تناظر میں ضابطہءتحریر میں لائی گئی تخلیقی تنقید ہے ۔ جو انسانی باطنیت ، کاٸنات کی تخلیق اور مظاہر کے ہست کے جواز کو ناقدانہ نظر سے دیکھنے کے ساتھ ساتھ ایک انسان سے لیکر پورے عہد اور ایک عہد سے زمانوں پر پھیلے انسانی کردار کی پرکھ پرچول کرکے احوال بیان کرتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ کائنات کا بڑے سے بڑا سوال ادب نے ہی پیدا کیا ہے چونکہ میرے نزدیک ایسی ہر تخلیق جس کا تعلق انسانی ذہن سے ہو اور اظہار زبان میں ہو ادب کہلاتا ہے اس لیے دنیا کی ہر تخلیقی تحریر چاہے اس کا موضوع فلسفہ ہو یا سائنس ادب ہی کہلاۓ گی ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا کہ اگر ادب بذات خود ایک عظیم تنقید ہے ، کہ جو ہے ، تو پھر ادب کی پرکھ پرچول کرنے والے کی کیا سطح اور کیا اہلیت ہونی چاہئیے۔ کس مقام اور کس مرتبے اور کس علمی و ادبی اور انسانی بصیرت کا حامل انسان نقاد ہونے کا اہل ہوسکتا ہے ، اس کا دعویٰ کر سکتا ہے یا اس کا حق رکھتا ہے ، جو اس عظیم تنقید پر نقد و نظر کا حق ادا کرسکتا ہو۔ کیا کسی زبان و ادب کے مضمون میں ڈگری ہولڈر یا کوٸی زبان و ادب کا لگا بندھا نصاب پڑھانے والا نقاد کے منصب پر فاٸز ہوسکتا ہے ؟ اس کا سادہ سا جواب یہ کہ نہیں فاٸز ہوسکتا کیونکہ تنقید بذات خود تخلیقی آدمی مانگتی ہے اور مدرسین کی بدقسمتی رہی ہے کہ ان میں شاذ و نادر ہی کوٸی بڑا تخلیقی ادیب پیدا ہوا ہوگا ۔ اکثریت ہمیشہ کمتر درجے کی حامل ہی رہی ہے ۔ البتہ یہ دیکھا گیا ہے کہ پہلے سے تخلیقی وابستگی والے چند نابغوں نے روزگار کے طور پر تدریس کے پیشے کو اپنا لیا اور پیشے کی عزت بن گٸی ۔ جو لوگ مدرس بننے کے بعد شاعر ادیب بننا ضروری سمجھتے ہیں ان بیچاروں کا ادیب ہونا کلاس رومز تک ہی محدود رہتا ہے یا پھر ان میں سے جو جو ضرورت سے زیادہ چالاک ہو وہ پبلک ریلیشنگ اور دیگر حربے آزما کر اپنے آپ کو اسٹیبلش کر لیتا ہے مگر رہتا کھوکھلے کا کھوکھلا ہی ہے ۔ میرے ہی عہد میں سرگودھا کے ایک تیز طرار نوجوان نے معروف ادبی مجلہ اوراق کو سیڑھی بنانے کے بعد بھارتی ادیبوں کے زریعے مغربی تھیوریوں کے پرچار کو پیڈسٹل بنایا اور بطور نقاد نام اور پیسہ تو کمالیا لیکن پڑھے لکھے طبقے میں سواۓ سرقہ نویس کاپی پیسٹر کے وقعت نہ پا سکا ۔ اس کا غیر تخلیقی ہونا اور مغربی ادیبوں کے جملوں کو الٹا پُلٹا کے لکھنا ہی اس کے فیک اور نالاٸق ہونے کی شہادت بن گیا ۔ یعنی اس بات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ نقاد ہونے کے لیے محض نصابی و تدریسی ہونا یا سرمایہ پرستوں کے ایجنڈوں پر چل کر خود کو اسٹیبلش کرنا یا تدریس چھوڑ کر چھلانگ لگاتے ہوۓ ڈیپوٹیشن پر اداروں کی چٸیرمینی حاصل کرنا ہی کافی نہیں ہوتا بلکہ پہلی شرط تخلیقی ہونا ، دوسری شرط مخلص ہونا اور تیسری شرط مفاد پرست نہ ہونا ہوتی ہے ۔ کسی کے نقاد ہونے کے لیے بنیادی ضرورت ہی یہ ہے کہ اسے تخلیقی واردات کے اسرار و رموز کا تجربہ ہو اور معاملات ِ تخلیق سے بلاواسطہ آگاہی ہو ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا محض تخلیق کار نقاد ہونے کا اہل قرار دیا جاسکتا ہے تو جواب پھر نفی میں ہے ۔ ضروری نہیں کہ تخلیقی قابلیت کا حامل کوٸی شاعر یا نثرنگار تخلیق کے تجزیے کا بھی اہل ہو اور ویسے بھی نقاد کے لیے کسی ایک تخلیقی صنفی رویے کی فہم اور اس کے معاٸب و محاسن کی جانچ پڑتال سے زیادہ کی قابلیت درکار ہوتی ہے تاکہ وہ آفاقی تخلیقی بودوباش ، اس کی روشوں ، موضوعات ، تنوعات اور معجزات کا احاطہ کرسکے جبکہ شاعر کے لیے ضروری نہیں کہ وہ فن پاروں کی پرکھ اور پرچول کی ذمہ داری ادا کرے ۔ میں سمجھتا ہوں نقاد کی علمی و فکری سطح اتنی بلند ہونی چاہٸیے کہ وہ سماجی اور سیاسی سطح پر بھی تجزیے اور رہنماٸی کی قدرت رکھتا ہو اور پورے اخلاص کے ساتھ قاری ، تخلیق کار اور سماج کی سمت نماٸی کرے۔ اگرچہ کسی تخلیق پارے کے حوالے سے اپنی پسند یا ناپسند کا اظہار بھی ایک نہایت بنیادی تنقید کے ہی ضمرے میں آۓ گا لیکن سرسری راۓ یا کوٸی تاثراتی یا رسمی مضمون یا کتاب لکھنے والا اس وقت تک نقاد کہلانے کا مستحق نہیں ہوسکتا جب تک وہ اپنے نقد و نظر کے زریعے پہلے سے موجود تنقیدی مواد میں کوٸی فکری یا تفہیمی اضافہ نہیں کرتا ۔ یہی وجہ ہے کہ ہر مدرس مضمون لکھ پانے کے باوجود ، حتیٰ کہ کتابوں کے انبار لگانے کے باوجود بھی نقاد کے مرتبے پر فاٸز نہیں ہوتا کیونکہ وہ پہلے سے موجود کانٹینٹ سے باہر ہی نہیں نکل پاتا ۔ یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ نوکری یا ڈگری کی ضرورت یا کسی کانفرنس یا پراجیکٹ کے حصول کی خواہش کے تحت لکھی گٸی تحریر کو بھی تنقید کہنا کسی گھناونے فعل اور سخت جرم سے کم نہیں کہ ایسے کام کی بنیاد میں اخلاص کی بجاۓ حرص ہونے کی وجہ سے اس کی کوٸی علمی و ادبی حیثیت باقی نہیں رہ جاتی اور محض ایک کتابی فریب رہ جاتا ہے جس سے لوگوں کی آنکھوں می دھول تو جھونکی جاسکتی ہے لیکن اس سے کسی قسم کا فیض مہیا نہیں کیا جا سکتا۔ نقاد کے لیے دنیا بھر کے تخلیقی ادب کے مطالعے کے علاوہ دیگر تخلیقی فنون ، مذاہب ، تاریخ ، ساٸنس ، فلسفہ ، سوشل […]
بک کارنر ، جہلم کے لئے حرفِ سکینت 7 دسمبر 2023ء مغل شہنشاہ شاہجہان نے موت کو بھی تاج محل بنا دیا ۔ الھڑ مٹیار کی طرح سلفے دی لاٹ ورگی ” شاہد حمید : اے عشق جنوں پیشہ ” دستخط شدہ (گگن شاہد ) کتاب : تالیف و تشکیل امر شاہد بک کارنر جہلم سے ہمارے ادبی جاگیر دار ” سجاد امین ثم تلمبوی ” نے 26 نومبر کی ڈاک سے دیگر کتب کے ساتھ ساتھ بھجوائی تھی ۔ متن و مواد اپنی جگہ ،کتاب کی زیب و زینت بھی چن ورگی ہے ۔۔۔ خراجِ تحسین کا چراغاں مشعل بردار کتابی جلوس کا جلوہ ہے ۔ ۔یوں لگتا ہے کہ آنہ لائبریری سے "بسم اللّٰہ کراں ” تک آتے آتے ان کے بیٹوں گگن اور امر شاہد نے اپنے مرحوم والد شاہد حمید اور بک کارنر جہلم بھی کو باانداز دگر کتاب کلچر کا تاج محل بنا دیا ہے ۔ لوح سے تمت بالخیر تک لفظوں کی سیج بنایا ہے کہ جی شاد باش ہوا ۔ کتاب کو پیشہ سے زیادہ محبت بنانے میں بظاہر گھاٹے کا سودا ہے ۔ بک شیلف پر سجی ہوئی ہر کتاب یہ یقین دلاتی ہے کہ آج ” بک کارنر , جہلم ” ایک برانڈ بن چکا ہے ۔ محمد حسین آزاد کی شہرت آفاق کتاب ” آب حیات ” کے دیباچہ میں حرفِ چینی کو بزرگانِ با کمال کو نکتہ رس بنانے کا حسنِ ظن بہت خوب است ۔ کتاب کلچر کے سانسوں کی ڈوری ٹوٹنے کی باتیں دانشوروں کی زبان سے ” کتابوں کی آخری صدی ” ہم طالب علموں نے بھی سنی ہیں بلکہ لاہور میں مکتبہ میری لائبریری ، چودھری اکیڈمی ، فیروز سنز ، ماورا ، کلاسیک ، کو بیوہ کی مانگ کی طرح اجڑے ہوئے دیکھا ہے اور فٹ پاتھوں پر کتابیں رلتے ہوئی دیکھی اور لشکتے شو کیسوں میں جوتے ۔ ملتان میں ایک بیکن ہاؤس بھی ہوا کرتا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔ باقی شہروں کی اللہ ہی اللہ جانتا ہے ۔۔۔۔اب خرابوں میں ملیں !! سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کے چکا چوند بحر بیکراں میں بابے سمجھتے ہیں کہ کتاب کلچر ” آئی سی یو ” میں چلا گیا ہے ۔ ۔۔۔۔۔۔ بک کارنر جہلم ان معدودے چند پبلشنگ ہاؤس میں سے ایک ہے جس نے کتاب کو بنایا اور کتاب نے ان کو بنا دیا ۔ ۔۔۔۔۔امید ہے کہ قاری اور کتاب کے خریدار کے علاؤہ لکھنے والوں کے اکرام کا سلسلہ بھی آگے بڑھائیں گے۔۔۔ یہی ان کی میثاق میراث کی سند فضیلت ہو گی ۔ منیر ابنِ رزمی ،چیچہ وطنی ۔۔۔۔ پاکستان
صلال یوسف:::: کسی بھی سیاسی پوسٹ پر کچھ لکھنا عادت نہیں، مگر کیا ایسا مناسب ہے ؟ کیا ہمارا دین، ہماری تربیت اس کی اجازت دیتی ہے؟ جو ہم کر رہے ہیں، اور جس طرح کی باتیں لکھتے ، کہتے اور کرتے ہیں؟ ہاں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ! مگر ہر وہ بات جو ہمیں ذاتی طور پر پسند نہیں، چاہے وہ اخلاقی یا مذہبی لحاظ سے کسی طرح کی بھی ہو، ہم اس پر رائے زنی کرنا اور اس کو کھینچنا فرض اولین سمجھتے ہیں۔ میری کسی بھی سیاسی جماعت سے کبھی کوئی وابستگی نہیں رہی مگر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اک بات ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا یہ اس اسلام کی تربیت ہے جو ہمیں آقا دوجہان سرکار دوعالم ﷺ نے عطا کی؟ سب ہی مسلمان اور پاکستانی قابل احترام ہیں اور اچھے ہیں سو اک کوشش کہ ہم خود کی حد تک اچھائی بیان کریں، اور پہلے خود کو بدلنے کی کوشش کریں، کسی کو کچھ کہنے اور کسی پر تہمت لگانے سے اجتناب کرتے ہوئے اس بات کا عملی ثبوت تو دیں اک بار ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کسی بھی معاشرے کا یہ المیہ ہے کہ اک دوجے کو الزام دیں ، رگید دیں، اس کی نسل تک کو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ صرف اہنی نام نہاد انا کی تسکین کے لئے ۔۔۔۔۔۔۔۔
کسی بھی سیاسی پوسٹ پر کچھ لکھنا عادت نہیںادارۂ فروغِ قومی زبان کے زیر اہتمام خواجہ غلام قطب الدین فریدی کے ساتھ شعری نشست اسلام آباد:اُردو فورم، ادارۂ فروغِ قومی زبان ،قومی ورثہ و ثقافت ڈویژن کے زیر اہتمام اُردو سرائیکی اور پنجابی زبان کے ممتاز صوفی شاعر، ادیب اور سجادہ نشین آستانۂ عالیہ گڑھی اختیار خان، رحیم یار خان خواجہ غلام قطب الدین فریدی کے ساتھ شعری نشست ادارے کے ہال میں منعقد ہوئی۔ ادارے کے ایگزیکٹیو ڈایریکٹر ڈاکٹر راشد حمید نے ابتدئی کلمات ادا کیے۔چیئرمین مسلم انسٹیٹیوٹ صاحبزادہ سلطان احمد علی،پروفیسر قیصرہ علوی، ڈاکٹر فاروق عادل، ڈاکٹر سعید احمد سعیدی اورصاحبزادہ قمرالحق نےخواجہ غلام قطب الدین فریدی کی علمی ۔ادبی اور روحانی شخصیت کے حوالے سے گفتگو کی۔تقریب کی نظامت اکبر خان نیازی نے کی۔مہمان شخصیت خواجہ غلام قطب الدین فریدی نے نعت کی حقیقی روح اور اس کی تشریح کے حوالے سے بہت عمدہ اور اثر انگیز گفتگو کی اور تصوف کی مختلف پرتوں اور جہتوں کے حوالے سے بھی حاضرین محفل کو آگاہ کیا ، اس کے بعد انھوں نے اردو اور سرائیکی کلام سنا کر خوب داد سمیٹی۔ادارے کے ڈایریکٹرجنرل پروفیسرڈاکٹر محمد سلیم مظہر نے مہمانوں کاشکریہ اداکرتے ہوۓ کہا کہ فروغِ اردو میں صوفیا کا کردار نہایت اہم ہے۔ صوفیا نے اپنے حسن عمل اور معنوی روشنائی سے لوگوں کے دلوں میں گھر کیا ۔ صاحبزادہ سلطان احمد علی نےکہاکہ خواجہ غلام قطب الدین فریدی کی شاعری میں لطافت اور مقصدیت کے اہم پہلو بدرجہ اتم موجود ہیں ورنہ آج کی شاعری تہذیب و ثقافت سے عاری ہوتی جارہی ہیں۔ انھوں نے کہاکہ اردو زبان یتیم نہیں اس کی حفاظت کرنے والے خواجہ غلام قطب الدین فریدی کی صورت میں موجود ہیں۔پروفیسرقیصرہ علوی نے کہا کہ میری خوش بختی ہے کہ میں اس روحانی محفل میں موجود ہوں۔ ڈاکٹر فاروق عادل نے کہا کہ خانقاہیں علم و ادب کی توانا روایت رہی ہیں ۔خواجہ غلام قطب الدین فریدی کے اشعار تہذیبِ لفظ کا ذریعہ ہیں۔صاحبزادہ قمر الحق نے کہا کہ غلام قطب الدین فریدی کی شاعری ان کی شخصیت کے اندر موجود صوفیانہ خوبیوں کی بدولت منفرد اور اثر انگیز ہے۔ ڈاکٹر سعید احمد سعیدی نے خواجہ غلام قطب الدین فریدی کی شاعری پر پیر نصیرالدین گولڑوی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ خواجہ صاحب کے اشعار میں مولانا جامی کی طرح رنگ تغزل جھلکتا ہے۔
خواجہ غلام قطب الدین فریدی کے ساتھ شعری نشستمکتوبات کلیم اللہ خان گجرات کے ہر دم متحرک محقق و قلم کار رائے فصیح اللہ جرال کی نویں (9) کتاب ” مکتوبات کلیم اللہ خان” شائع ہو گئی ہے۔ مکتوبات پر مبنی مختصر کتاب میں فصیح اللہ جرال کے شوق تحقیق سے مزین حواشی نے اسے اہم دستاویز بنا دیا ہے. پیغام رسانی کے جدید ذرائع جس قدر برق رفتار ہوئے ہیں اردو مجموعہ ہائے مکاتیب کی اشاعت میں اسی قدر اضافہ ہوا ہے. خطوط نگاری کے مٹتے چلن کے باعث خطوط کو محفوظ اور مدون کرنا ہی بہت اہم ہے اور اگر مکتوب نویسی دو ادبی و تحقیقی شخصیات کے مابین ہو تو اس کی اہمیت اور افادیت دو چند ہو جاتی ہے. رائے فصیح اللہ جرال کی کتاب ” مکاتیب کلیم اللہ خان”مذکورہ بالا خیال کی نمایاں مثال بن کر نمودار ہوئی ہے. احباب کے خطوط مکتوب الیہ کے لیے مسرت کے پیامبر ہوتے ہیں اسی لیے نثری ادب میں دلچسپی سے پڑھے جاتے ہیں.کلیم اللہ خان کے یہ خطوط نجی ہونے کے باوجود اپنے اندر اجتماعیت و ادبیت کا عنصر رکھتے ہیں. یہ خطوط ان کی فن غزل کی سی مہارت کے عکاس ہیں،اختصار و جامعیت، سادگی و بے ساختگی،احساس کی لطافت و سچائی کے آئینہ دار ہیں. کلیم اللہ خان کی عرض سخن مکتوب الیہ کے لیے گنجینۂ فن ثابت ہوئی ہے. خط کو آدھی ملاقات کہا جاتا ہےلیکن یہ پوری ملاقات سے زیادہ پائیدار اور دیرپا اثرات رکھتے ہیں.بالمشافہ ملاقات کی گفتگو جلد تحلیل ہو جاتی ہے لیکن خطوط میں لکھے الفاظ اور ان کا مفہوم ہمیشہ تروتازہ رہتا ہے.ان خطوط کی تدوین کرنے والے مکتوب الیہ نے انہیں حواشی و جامع تعارف سے بخوبی مرصع کیا ہے اس سے ان مکاتیب کا ہرلفظ اور ہرجملہ بولنے لگا ہے. یہ کتاب پڑھ کر ڈاکٹر سید عبداللہ کی بات یاد آ رہی ہے کہ ” خطوط نگاری خود ادب نہیں مگر جب اس کو خاص ماحول ،خاص مزاج ، خاص استعداد ، ایک خاص گھڑی اور خاص ساعت میسر آجائے تو یہ ادب بن سکتی ہے”. 86 صفحات پر مشتمل ‘مکتوبات کلیم اللہ خان’ کو مکتبہ شافی ، لاہور نے شائع کیا ہے۔ انتساب نڈر صحافی راجہ مسعوداللہ خان مرحوم کے نام ہے.مکتوب الیہ کے جامع مگر معلوماتی حواشی سے کتاب کی اہمیت کو دوچند کر دیا ہے. رائے فصیح اللہ جرال کا شکریہ کہ وہ میرے اصرار پر کتاب آتے ہی بصد شوق و محبت کتاب دوست سکندر ریاض چوہان اور نعمان احمد المعروف اوشو گجراتی کے ساتھ میرے ہاں تشریف لائے، کتاب پیش کی جسے میں نے بصد شکریہ وصول پایا۔اس موقع پر انہوں نے کتاب کے حوالے سے بہت مفید اور دلچسپ گفتگو سے کئی پرتیں وا کیں۔ اس اہمیت کی حامل کتاب کی اشاعت پر رائے فصیح اللہ کو دلی مبارکباد پیش کرتا ہوں…. شیخ عبدالرشید ڈائریکٹر میڈیا اینڈ پبلی کیشنز یونیورسٹی آف گجرات
پاکستان رائیٹرز یونین اور حلقہ ارباب ذوق لاہور کے زیر اہتمام سیمینار موضوع : ادب دشمن فیسٹیولز تحریر : فیصل زمان چشتی یکم دسمبر 2023 بروز جمعتہ المبارک حلقہ ارباب ذوق لاہور کا خصوصی اجلاس منعقد ہوا جس میں ایک سیمینار کا انعقاد کیا گیا جس کا موضوع تھا ” ادب دشمن فیسٹیولز ” ایک ڈسکشن پینل تشکیل دیا گیا جس کے چیف پینلسٹ لمز یونیورسٹی کے سینئر استاد پروفیسر ڈاکٹر سید عظیم تھے۔ فرحت عباس شاہ، پروفیسر شفیق احمد خان، منظر حسین اختر، علی نواز شاہ اور شہزاد واثق بھی پینل کے شرکاء میں شامل تھے۔ نظامت کے فرائض فیصل زمان چشتی نے ادا کیے۔ مقررین نے کہا کہ ادب ہمیشہ سچائی ، سماج اور معاشرے کے ساتھ جڑا ہوتا ہے۔ دوران تخلیق ذاتی مفاد ادب کے لئے نقصان دہ ہے۔ ٹارگٹ کرکے کبھی ادب تخلیق نہیں کیا جاسکتا ہے۔ شاعری کے ذریعے پیسوں، مشاعروں اور عہدوں کا حصول ادب کے لئے زہر قاتل ہے۔ کئی مشہور شعراء کی مثالیں دی جاسکتی ہیں۔ نام نہاد ادبی فیسٹیولز سے ادب تباہ ہو رہا ہے۔ ادبی فیسٹیولز کے پیچھے چھپے راز کو جاننے کی ضرورت ہے۔ اس سے تھنکرز تباہ ہورہے ہیں اور مفاد پرست عناصر آگے آرہے ہیں۔ ان کا مقصد تخلیقیت کو ختم کرنا ہے، صاحب ادراک اور صاحب شعور لوگوں کی بیخ کنی کی جارہی ہے۔ یہ مصنوعی لوگوں کو آگے لا رہے ہیں۔ کھلم کھلا ادب دشمنی کی جارہی ہے اور کوئی روکنے والا اور لگام ڈالنے والا نہیں ہے۔ ادب معاشرے کی وہ آنکھ ہوتا ہے جس سے آنے والی نسلوں کو راہنمائی ملتی ہے۔ ادب کو فیسٹیولز اور میلوں ٹھیلوں سے جوڑنا انتہائی نامناسب بلکہ ادب کی تضحیک کرنے کے مترادف ہے۔ ادب ایک سنجیدہ کام ہے یہ کوئی شغل میلہ بالکل بھی نہیں ہے۔ حکمرانوں کو بھی سنجیدہ اور سوچنے و سمجھنے والے لوگ اچھے نہیں لگتے ہیں اسی لیے ہمیشہ فرنٹ لائن پہ دونمبر اور غیر سنجیدہ لوگ لائے گئے۔ متشاعر خواتین و حضرات صدارتیں کرتے پھر رہے ہیں کوئی ضابطہ کوئی قاعدہ ہی نہیں ہے۔ کارپوریٹ سیکٹر سچا ادیب سامنے آنے ہی نہیں دے رہا ہے۔ ادب کو اگر ادب رہنے دیا جائے تو یہ سماج اور معاشرے پر احسان عظیم ہوگا۔ ادب کو شغل میلہ بنانے سے نہ روکا گیا تو معاشرہ مزید تباہی سے دوچار ہوگا۔ فیسٹیولز مفادات کی نگرانی کا کھیل ہے جبکہ ادب احساس اور وجدان سے تعلق رکھتا ہے جس میں دکھوں اور تکالیف کی ترسیل کی جاتی ہے۔ شروع سے ہی سرکاری سرپرستی سے ادیب کو خریدنے اور دھمکانے کی کوششیں کی جاتی رہی ہیں۔ کچھ نام نہاد ادیب اور دانشور مفادات اور عہدوں کے لالچ میں ادب کو بڑی حد تک تباہ کر چکے ہیں اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ ہوش کے ناخن لیے جایئں اور ایسے مثبت اقدامات کئے جائیں کہ ادب مزید تباہی و بربادی سے بچ سکے۔ ادب کو بچانے کے لئے سب سے بڑا کردار ادیب کو خود ادا کرنا ہوگا۔ فیسٹیولز کے سیاسی، معاشی اور نظریاتی پہلو ہوتے ہیں جن کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ہماری جمہوریت میں گہرائی نہیں ہے جس کی وجہ سے مسائل ہیں اور وہ گہرائی عوام ہوتے ہیں۔ تمام یونینز اور تحاریک اسی وجہ سے تباہ ہویئں اور ارادتا” کچلا بھی گیا۔ یہ مفادات کے مختلف گٹھ جوڑ ہیں۔ معیشت اور کمرشلائزیشن ہر جگہ اثر انداز ہوتی ہے۔ یہ بااثر لوگ ہیں جو ہماری تہذیب، ثقافت اور دیہاتی کلچر کو برباد کررہے ہیں ہرچیز کی قیمت لگائی جارہی ہے۔ یہ مارکیٹ اکانومی ہے۔ تہذیب کو ادب سے علیحدہ نہیں کیا جاسکتا ۔ تنقید نظریات لے کر آتی ہے اور ادبی تنقید سب سے اہمیت کی حامل ہے۔ اصل ادب آج بھی مڈل کلاس اور غریب طبقے میں لکھا جارہا ہے اور یہ ایک حقیقت ہے۔ ہماری سول سوسائٹی اور ادیب برادری کو آگے آنا چاہیے اور ادب دشمن سرگرمیوں کے سدباب کے اقدامات کرنے چاہئیں تاکہ حقیقی ادب اور معاشرہ بچ سکے۔ سب سے آخر میں پینل سے سوال و جواب کا سلسلہ بھی ہوا اور پینل نے حاضرین کے مختلف سوالات کے تسلی بخش جوابات دیئے۔ اس طرح تادیر جاری رہنے والا اجلاس اختتام پذیر ہوا۔۔
پاکستان راٸیٹرز یونین اور حلقہ ارباب ذوق لاہور کے زیر اہتمام سیمینارابھی سفر شروع ہی کیا ہے ، تم مخلص رہنا