صوفی کسے کہتے ہیں


صوفی صُفہ سے مشتق ہے۔ صُفہ سے مراد مسجد نبوی صلی الله علیہ و آلہ وسلم کا صُفہ (چبوترہ) ہے۔ یہ لفظ اہلِ صفہ کی طرف منسوب ہے۔ اہلِ صفہ وہ چند صحابہ کرام تھے جنہوں نے اپنے آپ کو دنیوی معاملات سے علیحدہ کر کے رسول الله صلی الله علیہ و آلہ وسلم کی بارگاہ کے لئے وقف کر دیا تھا، یہ لوگ اصحابِ صُفہ کہلاتے ہیں ۔۔ گویا یہ بارگاہ نبوی صلی الله علیہ و آلہ وسلم کے خاص طالب علم تھے۔ یہ لوگ سادہ لباس پہنتے تھے اور غذا بھی سادہ استعمال فرماتے تھے۔ ( ابن تیمیہ کے مطابق رسول الله صلی الله علیہ و آلہ وسلم نے انہیں سوال کرنے سے بلکل منع کر دیا تھا۔) چونکہ صوفیاء کرام کی زندگی میں اصحابِ صفہ کی زندگی کی جھلک موجود ہوتی ہے، اس وجہ سے ان کو صوفی کہا جاتا ہے۔
.. صوفی کی تعریف, صوفیاء کی نظر میں ..
الصوفی من لبس الصوف علی الصفا واذاق الھویٰ طعم الجفا ولزم طرق المصطفیٰ و کانت الدنیا منہ علی القفاء
”صوفی وہ ہے جو قلب کی صفائی کے ساتھ صوف پوش (سادہ لباس) ہو اور نفسانی خواہشات کو (زہد کی) سختی دیتا ہو اور شریعت مصطفیٰ صلی الله علیہ و آلہ وسلم کو لازم پکڑتا ہو اور دنیا کو پسِ پشت (غیر مقصود) ڈال دیتا ہو۔“
.. حضرت شیخ ابو علی رودباری رح ..
الصوفی ھو ان یکون العبد فی کل وقت بما ھو اولیٰ بہ فی الوقت
”صوفی وہ ہے جو ہر وقت اُسی کا ہو کر رہتا ہے جس کا وہ بندہ ہے۔“
.. حضرت عمر بن عثمان مکی رح ..
الصوفی ساکن الجوارح مطمئن الجنان مشروح الصدر منور الوجہ عامر الباطن غنیا عن الاشیاء لخالقھا
”صوفی پرسکون جسم، دل مطمئن، منور چہرہ، سینہ کشادہ، باطن آباد اور تعلق مع الله کی وجہ سے دنیا کی تمام اشیاء سے بے پرواہ ہوتا ہے۔“
.. حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رح ..
منقطع عن الخلق و متصل بالحق
”صوفی مخلوق سے آزاد اور خدا سے مربوط ہوتا ہے۔“
.. حضرت شیخ شبلی رح ..
ھم قوم آثروا الله عزوجل علیٰ کل شیء
”صوفیاء کرام وہ ہیں جو ہر چیز سے زیادہ الله کی رضا کو ترجیح دیتے ہیں۔“
.. حضرت ذوالنون مصری رح ..
علم تصوف کے چار طریقے ہیں،چار گواہ ہیں،چار مقام ہیں اور چار راستے ہیں
تصوف کا پہلا خاص الخاص طریق شریعت ہے،
دوسرا طریقت ہے۔ جو بال سے بھی زیادہ باریک ہے،
تیسرا حقیقت ہے جس سے ذاتِ حق کے مشکل و دقیق ترین نکات کی گرہ کشائی ہوتی ہے
اور چوتھا معرفت ہے جس میں معرفت الہی کا بے پایاں و عمیق دریائے توحید موجزن ہے۔
…… تصوف کی لغوی و اصطلاحی تعریف ………
صوفیا کے ہاں مشہور اصطلاح ’التصوف،عرب اس اصطلاح سے ناواقف ہیں، اصلاً کلمہ تصوف جو عربی زبان کے اَوزان میں سے تفعُّل کے وزن پر ہے، مستعمل نہیں۔عربوں نے صوف کے بارے میں مادہ (ص و ف) کومد نظر رکھتے ہوئے استعمال کیا ہے جس سے وہ بھیڑ کے بال اور پشمینہ لیتے ہیں اور بھیڑ کا وہ بچہ جس کے بال گنے ہوں اس کوصوف کی صفت سے ذکر کرتے ہیں۔[ لسان العرب،مختار الصحاح،مادہ :ص و ف]
صوفی کی وجہ تسمیہ
لفظ’ صوفی‘ کا اشتقاق ومصدر کیا ہے؟ اس میں مختلف اَقوال ہیں:
1۔صوفی کی نسبت مسجد ِنبویؐ میں اہل صفہ کی طرف ہے۔ماہرین لغت کا اس پر اعتراض ہے کہ اگر صوفی کی نسبت اہل صفہ کی طرف ہوتی تو صوفی کی بجائے صُفِّی ہونا چاہیے تھا۔
2۔صوفی کی نسبت اللہ تعالیٰ کے سامنے پہلی صف کی طرف ہے۔اس پر بھی یہی اعتراض کیا گیا کہ لغت کے اعتبار سے صَفِّی ہونا چاہیے تھانہ کہ صوفی۔
3۔ایک قول یہ ہے کہ صوفی صفوۃ من الخلق کی طرف منسوب ہے جو لغوی اعتبار سے غلط ہے، کیونکہ صفوۃ کی طرف نسبت صَفَوِیٌّ آتی ہے۔
4۔صوفی ،صوفہ بن بشر بن طابخہ قبیلہ عرب کی طرف منسوب ہے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں:
’’اگرچہ یہ نسبت لغوی،لفظی اعتبار سے درست ہے، لیکن سنداً اور تاریخی اعتبار سے ضعیف ہے،کیونکہ یہ زاہدوں،عابدوں کے ہاں غیر معروف ہے۔اگرنساک عابدوں کی نسبت انہیں لوگوں کی طرف ہوتی توپھر اس نسبت کے زیادہ حق دار صحابہؓ، تابعینؒ وتبع تابعین ہوتے اور پھر دلچسپ بات یہ ہے کہ جن لوگوں کو صوفی کہا جاتا ہے وہ یہ ناپسند کرتے ہیں کہ ان کی نسبت ایسے جاہلی قبیلہ کی طرف ہو جس کا اسلام میں کوئی وجودنہیں۔‘‘
لہٰذا اس سے یہی اندازہ ہوتا ہے کہ یہ بھی نسبت غلط ہے۔
5۔ایک رائے یہ ہے کہ صوفی، الصفۃ (اچھی صفات سے متصف ہونا)سے مشتق ہے جو حسب ِسابق صحیح نہیں ہے، کیونکہ الصفہ کی نسبت صُفِّی آتی ہے نا کہ صوفی۔ [فتاوی ابن تیمیہ،۱۱؍۶،مجلہ البحوث الإسلامیۃ،شمارہ ۴۰]
6۔کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ صوفی، صفا سے ماخوذ ہے جس کے معنی قلب کی صفائی اور اصلاح ہے۔لغوی اعتبار سے یہ نسبت بھی غلط ہے، کیونکہ صفاکی طرف نسبت صَفْوِیٌّ آتی ہے ۔[ قرآن اور تصوف ازمیر ولی الدین،ص۸]
7۔علامہ لطفی جمعہ کی تحقیق کے مطابق صوفی کا لفظ ثیوصوفیا سے مشتق ہے جو ایک یونانی کلمہ ہے جس کے معنی حکمت الٰہی کے ہیں۔[ایضاً:ص۹]
8۔صوفی صوف(پشمینہ)کی طرف نسبت ہے جس کے معنی پشم پہننے والا۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ نے اسی نسبت کو درست اورراجح کہا ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ اگر لغوی اشتقاق کے تناظر سے دیکھا جائے تویہ نسبت درست معلوم ہوتی ہے۔[مجموع الفتاوی :۱۱؍۶]
تصوف کا اصطلاحی مفہوم
جس طرح آپ نے مذکورہ اَقوال سے صوفی کے اشتقاق میں اختلاف پایا ہے اسی طرح تصوف کی اصطلاحی تعریف بھی تفصیل طلب ہے۔
تصوف کی اصطلاحی تعریف کے حوالے سے اگر مبالغہ نہ سمجھا جائے تو اس میں متعدد اَقوال ہیں جو باہم متعارض، متباین اور متغایر ہیں۔ذیل میں ایسے اَقوال ان پر اِجمالی تبصرے کے ساتھ درج کیے جاتے ہیں جن سے بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ تصوف کا اصل مطلب اورمفہوم کیا ہے۔
٭ جنید فرماتے ہیں:
ما أخذنا التصوف عن القال والقیل ولکن عن الجوع وترک الدنیا وقطع المألوف والمستحسنات لأن التصوف ہوصفاء المعاملة مع اﷲ واصلہ العزوف عن الدنیا۔
’’ہم نے تصوف قیل وقال سے حاصل نہیں کیا بلکہ ہم نے تصوف بھوک،ترک دنیا،مرغوب اور پسندیدہ اشیاء سے لاتعلقی سے حاصل کیا ہے، کیونکہ تصوف اللہ تعالیٰ کے ساتھ معاملات کی پاکیزگی کا نام ہے،جس کی بنیاد دنیا سے علیحدگی پر ہے۔‘‘ [طبقات الحنابلۃ،۱؍۱۲۸،حلیۃ الأولیائ:۱۰؍۲۷۸]
جب کہ اِرشاد باری ہے:
{وَلَا تَنْسَ نَصِیْبَکَ مِنَ الدُّنْیَا}’’اور دنیا سے اپنا حصہ لینا نہ بھولیے۔‘‘ [القصص:۷۷]
{رَبَّنَا اٰتِنَا فِیْ الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّفِیْ الآخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ}[البقرۃ:۲۰۱]
’’اے ہمارے پروردگار!ہمیں دنیا میں بھی نعمت عطا فرما اور آخرت میں بھی نعمت عطا فرما اور دوزخ کے عذاب سے محفوظ فرما۔‘‘
اور رسول اللہﷺ صبح اور شام کے اذکار میں درج ذیل دعا کا اہتمام فرمایا کرتے تھے:
’’ اَللٰہُمَّ إِنِّیْ أَعُوْذُبِکَ مِنَ الْکُفْرِ وَالْفَقْرِ وَأَعُوْذُبِکَ مِنْ عَذَابِ النَّارِ‘‘[مسند أحمد:۵؍۴۲]
’’اے اللہ!میں کفر ، فقر سے اور دوزخ کے عذاب سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔‘‘
زہد کا مفہوم
’زہد‘ کے مفہوم کو مزید وضاحت سے سمجھنے کے لیے حضرت علیؓ کا قول ملاحظہ فرما ئیں:
امیر المؤمنین حضرت علیؓ ارشاد فرماتے ہیں:
’’اگر کوئی شخص تمام زمینی سامان، متاع واَسباب اکٹھے کرے اور اس کی نیت اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنا ہے تو وہ زاہد ہے اور زمین میں تمام اَشیاء کو ترک کردیتا ہے جب کہ اسمیں اللہ کی رضا مقصود نہیں تو وہ زاہد نہیں اور نہ ہی اسے دنیا کے مال واَسباب چھوڑنے پر عابد کہا جائے گا۔‘‘[التصوف لشمہرانی ،ص۱۷۱]
ا س کے علاوہ تصوف اور صوفی کی تعریفات کے حوالے سے درج ذیل اَقوال یہ ہیں:
٭ابو الحسن نوری کہتے ہیں:
’’لیس التصوف رسوما ولا علوما ولکنہ اخلاق‘‘
’’تصوف رسوم اور علوم نہیں بلکہ وہ صرف اخلاق ہے۔‘‘[ علم تصوف ازعباداللہ اختر،ص۲۰]
٭مرتعش بھی یہی فرماتے ہیں:
التصوف حسن الخلق …’’تصوف حسن خلق ہے۔‘‘
٭علی بن بندار الصیرفی تصوف کی تعریف کے حوالے سے بیان کرتے ہیں:
’’التصوف اسقاط ردیة للحق ظاہرا وباطنا‘‘ [ ایضاً،ص۲۱]
’’تصوف یہ ہے کہ صوفی اپنے آپ کو ظاہر اور باطن میں نہ دیکھے ،بلکہ صرف مشاہدۂ حق ہو۔‘‘
٭ابوبکر شبلی اس سے ایک قدم اور آگے جاتے ہیں اور فرماتے ہیں:
’’التصوف شرک لأنہ صیانة القلب عن رؤیة الغیر ولا غیر‘‘[ علم تصوف،ص۲۱]
’’تصوف شرک ہے، کیونکہ وہ دل کو غیر کے دیکھنے سے محفوظ رکھتا ہے،حالانکہ غیرکا وجود ہی نہیں۔‘‘
تصوف اور صوفیا کے اِصطلاحی نام
اسلام کے ابتدائی زمانہ میں جب کہ تصوف اپنے اذواق ،مجاہدات،حقائق اورمشاہدات کے اعتبار سے ایک مستقل فن کی حیثیت سے متعارف نہیں تھا۔ اس لیے اس کا کوئی نام بھی متعین نہیں تھا ،کبھی اسے علم تصوف سے تعبیر کیا جاتا، کبھی علم باطن کے نام سے اور کبھی کسی اور نام سے موسوم کیا جاتا تھا۔[تاریخ تصوف اسلام ازرئیس احمد جعفری،ص۷۳]
اسی طرح صوفیا کو بھی کئی ناموں سے ذکر کیا جاتا ہے ۔ملکوں ،شہروں سے نقل مکانی کر کے دیارِ غیر میں رہنے کی وجہ سے غرباء اور کثرت سفر کی وجہ سے سیّاحین بھی کہاجاتا تھا۔اَہل شام زیادہ تر بھوکا رہنے کی وجہ سے جوعیۃ کے نام سے ذکر کرتے تھے۔[التعرف لمذہب أہل التصوف:۱؍۲۱،۲۲]
تحریک تصوف کا آغاز اور تاریخی پس منظر
دوسری صدی ہجری میں جب زہاد ،صوف(پشمینہ) کا لباس بکثرت استعمال کرنے لگے تو ’صوفی‘ کی اصطلاح عام ہوئی اور پشمینہ لباس پہننے کی وجہ سے شہرت اختیار کر گئی ۔لہٰذا تحریک تصوف صوف کی وجہ سے مشہور ہوئی۔
سلوک تصوف کا عملی طور پر آغاز بصرہ میں ہوا جس شخص نے سب سے پہلے صوفیا کے لیے مجلس کا انعقاد کیا وہ حسن بصریؒ کے شاگردوں میں سے عبدالواحد بن زید ہیں۔[مجموع الفتاوی:۱۱؍۶،۲۹]
ابو نصر سراج لکھتے ہیں کہ
’’تصوف کی ابتداء قبل از اسلام دور جاہلیت میں ہوئی۔‘‘[اللمع ،لابی نصر سراج،ص۴۲]
اور عبدالواحد وہ ہیں کہ جن کاشمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جن پر عبادت کرنے کا جذبہ غالب آیا اور یہ ذوق اس حد تک بڑھا کہ علوم حدیث میں اتقان پیدا کرنے سے غافل ہو گئے وہ اپنی گفتگو میں اکثر منکر روایات بیان کرنے لگے۔یہی وجہ ہے کہ امام نسائی رحمہ اللہ نے انہیں ’متروک الحدیث‘ کہا ہے۔امام ذہبیؒ فرماتے ہیں کہ
’’بڑے زہاد اور صاحب کمال لوگوں میں سے تھے جن پر ’قدری فرقہ‘ سے تعلق رکھنے کا الزام ہے۔‘‘[السیر:۸؍۴۴۹]
امام قشیریؒ کی تحقیق کی رو سے
لفظ صوفی۲۰۰ھ کے کچھ پہلے مشہور ہوا۔رسول اللہﷺ کی رحلت کے بعد جس لقب سے اس زمانہ کے اَفاضل یاد کیے جاتے تھے وہ صحابہؓ تھا۔کسی دوسرے لقب کی انہیں ضرورت ہی نہ تھی،کیونکہ صحابیت سے بہتر کوئی فضیلت نہ تھی۔جن بزرگوں نے صحابہؓ کی صحبت اختیار کی وہ اپنے زمانہ میں تابعین کہلائے اور تابعین کے فیض یافتہ حضرات اپنے زمانے میں اتباع تابعین کے ممتاز لقب سے یاد کیے جاتے تھے۔اس کے بعد زمانے کا رنگ بدلہ اور لوگوں کے اَحوال ومراتب میں نمایاں فرق پیدا ہونے لگا۔ جن خوش بختوں کی توجہ دینی اُمور کی طرف زیادہ تھی ان کو زہاد اور عباد کے ناموں سے یاد کیا گیا۔کچھ ہی عرصہ بعد بدعات کا ظہور ہونے لگے اور ہر فریق نے اپنے زہدکا دعوی کرتے نظر آنے لگے۔زمانہ کا یہ رنگ دیکھ کر خواصِ اہل سنت نے جو اپنے قلوب کو حق تعالیٰ کی یاد سے غافل نہیں ہونے دیتے تھے اور جو اپنے نفوس کو خشیت الٰہی سے مغلوب دیکھتے تھے ،ابنائے زمانہ سے علیحدگی اختیار کر لی اور انہی کو’ صوفیہ‘ کے لقب سے یاد کیا جانے لگا۔[قرآن اور تصوف،ص۹،۱۰]
امام ابن جوزیؒ تحریک تصوف کی ابتدا کے حوالے سے فرماتے ہیں:
’’طریقہ(تحریک)تصوف کی ابتدا مکمل زہد وعبادت سے ہوئی،پھر آہستہ آہستہ صوفیوں نے سماع اور رقص وسرود کی مجلسوں کے انعقاد کی رخصت نکالی لہٰذا عامۃ الناس میں سے آخرت کے طلب گاروں نے جب اس میں ریاضت وعبادت دیکھی تو وہ اس تحریک کی طرف لپکے اور دنیا کے طلب گاروں نے جب اس میں سماع،رقص اور لعب وراحت دیکھی تو انہوں نے بڑے زور وشور سے اس تحریک میں حصہ لینا شروع کر دیا۔‘‘[ تلبیس ابلیس،ص:۱۹۹]
پشمینہ پہننے کے بارے میں ابن سیرین ؒاور ابن تیمیہؒ کی تصریحات
صوفیاء کے ہاں ابن سیرینؒ کو صف اوّل کا زاہد تسلیم کیا گیا ہے ان سے لبس صوف کے حوالے سے استفسار کیا گیا کہ حضرت مسیح علیہ السلام صوف پہنتے تھے؟ تو انہوں نے جواب دیا
’’ہمارے لیے آنجناب ﷺ کی سنت دوسرے طریقوں کی بہ نسبت زیادہ پسندیدہ ہونی چاہیے۔‘‘
شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ لبس صوف کے حوالے سے فرماتے ہیں کہ
’’اس کو عبادت بنانا اور اللہ کی طرف تقرب کا راستہ اختیار کرنا بدعت ہے۔البتہ بطور حاجت یا عام استفادہ کے پیش نظر کوئی حرج نہیں۔‘‘[مجموع الفتاوی،۱۱؍۵۵۵]
تحریک تصوف کے ظہور کی وجوہات
اس تحریک کے جنم لینے کی سب سے بڑی وجہ اسلامی معاشرے کا دنیاوی لذات میں غرق ہونے کے ردعمل نے پیدا کیا۔ معلوم ہوتا ہے کہ کچھ لوگوں نے چند چیزوں کو مباحات جان کر سلوک کا راستہ اختیار کیا اور اپنی تائید کے لیے بعض شرعی نصوص کو بطورِ دلیل بھی پیش کرنے لگے۔
تصوف کی ابتدا زہد وتقویٰ پر تھی۔ابتدا میں بدعات،رسومات اور فاسد عقائد کا کوئی وجود نہیں ملتا،پھر چوتھی صدی ہجری کا دور مروجہ تصوف کی داغ بیل کا دور تھا جس میں حلاج،جنید اور ابن محمد صوفیا کا لباس پہن کر تصوف میں داخل ہو گئے۔ تصوف کے آغازکی ایک وجہ خارجی عوامل تھے جو کہ دوسری قوموں کی تہذیب اور فلسفہ تھا۔مثلاً یونانی فلسفہ،ہندی تہذیب اور یہود ونصاری کی محرف تعلیمات،ان فلاسفروں کی فکر کے ذریعے سے مروجہ تصوف وجود کا سبب بنا۔
اس تحریک کے پیچھے استعماری ہاتھ تھے جومسلمانوں سے جہادی روح کو نکال دیناچاہتے تھے تاکہ اسلام اور مسلمانوں کو نیست ونابود کیا جا سکے اور اسلامی تعلیمات عام زندگی سے کٹ جائیں۔بس یہ دین عالم لاہوت سے خاص اور سیکولرازم سے متصف ہو جائے،جو زندگی کے مسائل کو حل کر سکے نہ معاشرے کی راہنمائی۔جب ایسی صورت پیدا ہو جائے گی تو مسلمانوں پر خود بخود قیامت ٹوٹ پڑے گی،لیکن!
دشمنان اسلام کا یہ خواب ہرگز پورا نہ ہو گا، کیونکہ دین اسلام میں اللہ رب العزت نے ایک ایسی تحریک رکھی ہے جو خود بخود اپنا دفاع کرنا جانتی ہے۔[الصوفیۃ معتقدا ومسلکا،ص۱۲۵،۱۲۶]
{ہُوَ الَّذِیْ اَرْسَلَ رَسُوْلَہ بِالہُدَی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہُ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہ وَلَوْکَرِہَ الْمُشْرِکُوْنَ}[الصف:۹]’’وہی تو ہے جس نے اپنے رسولﷺ کو ہدایت اور دین حق دے کر بھیجا تاکہ اسے تمام ادیان پر غالب کرے ،خواہ مشرکوں کو برا ہی لگے۔‘‘

Author: admin

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے